کچھ عرصے سے میری کچھ سینئر قانون دانوں، سینئر وکلا اور کچھ ریٹائرڈ سینئر ججوں سے اس بات پر گفت وشنید ہوتی رہی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کےڈھانچے کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں کئی اہم تجاویز سامنے لائی گئی ہیں۔ اس کالم میں ان میں سے کچھ اہم تجاویز کو پیش کررہاہوں۔ ان تجاویز کے ذریعے عدالتی نظام کے ڈھانچے کی تشکیل کیلئے چند اہم اصول مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔انصاف ایساہو جو محض چند منتخب ممتاز طبقوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بجائے سارے لوگوں کی ضرورتوں کا اہتمام کرے۔(2)انصاف دینے کی رفتار سست نہ ہو۔(3)انصاف غیر جانبدار انہ ہو اور کم خرچ پر دیاجائے۔ (4)ہرسطح پر جج کے انتخاب کے طریقہ کار کابھی نئے سرے سے جائزہ لیاجائے۔(5) اس نظام کے سلسلے میں جو نئے مسائل سامنے آرہے ہیں انکو پرانے انداز سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف فراہم کرنے والے سارے نظام کو نیچے سے اوپر تک نئے ڈھانچے میں تبدیل کرناہوگا۔ اس سلسلے میں جو تجاویز سامنے لائی گئی ہیں وہ بھی کم اہم نہیں۔ ان تجاویز کے مطابق 1۔پاکستان کی سول سروس کے طرز پر پاکستان جوڈیشل سروسز کاایک نظام قائم کرناپڑے گا۔ 2۔جوڈیشل سروسز میں انتخاب کیلئے باقاعدہ میرٹ کی بنیاد پر امتحانات / انٹرویو لینے کاطریقہ کار تیارکرنا ہوگا۔ اس طرح جو لا گریجویٹ کامیاب ہوتے ہیں منتخب کئے جاتے ہیں ان کو جوڈیشل اکیڈمی میں مناسب وقت تک تربیت دینے کے بعد پرائمری سطح کی عدالتوں میں جج مقررکیاجائے۔ مناسب تعداد میں پرائمری سطح کی عدالتیں مناسب تعداد میں مندرجہ ذیل عدالتوں کی حیثیت میں کرینگی۔ لیبرکورٹس، ہاری عدالتی، فیملی کورٹس، ہیومن رائٹس کورٹس، بینکنگ کورٹس کنزیومر پروٹیکشن کورٹس، رینٹ کورٹس، ڈرگ کورٹس، اینٹی کرپشن کورٹس، کرمنل کورٹس، سول کورٹس، ری کنسیلیشن کورٹس اوراینٹی ٹیررزم کورٹس۔ ان قانون دان، سینئر وکلا اورریٹائرڈ ججز کی مزید تجاویز تھیں کہ۔
(A) سول نوعیت کی تنازعات کی ثالثی، مفاہمت اورتصفیے کیلئے ان معاملات کو عدالتوں سے باہرحل کرنے کی کوششیں کی جائیں اور ایسی کوششوں کی ہمت افزائی کیلئےیونین کونسل کی سطح پر ثالثی کی کونسلیں قائم کی جائیں۔ علاوہ ازیں ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی ایسوسی ایشنوں سے لیکر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری تک پنچایتیں بنائی جائیں جو سول تنازعات کو ثالثی کے ذریعے طے کرسکیں۔ ثالثی کی یہ سب کونسلیں منتخب کی جائینگی اور ان کونسلوں کے ممبران کو اعزازی وظیفہ دیاجائے۔ جرائم کوموثر انداز میں دبانے کا فرض ریاست اورمعاشرے کا ہے۔ مالدار اورطاقتور لوگوں کو اجازت نہ دی جائے کہ وہ خطرناک جرائم کرنے کے بعد آزاد گھومتے رہیں۔اصل مقصد یہ ہوناچاہیے کہ جرائم کی تعداد کم ہو اورسزا دینے کی رفتار تیز ہو۔پراسیکیوٹرر جنرل کی آفس کو مستحکم کیاجائے اوراس کی شناخت غیرجانبدار کے طورپر ہو۔ پراسیکیوٹر جنرل محض ایک پرمٹ آفس کے طور پر کام کرے اس کے آفس کی حیثیت یہ ہو کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون سے کیسز عدالت میں پیش کرنےکے لائق ہیں کون سے نہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل کو محدود مدت کیلئے مقرر کرنے کے طریقہ کار کو ترک کیاجائے دیگر سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرڈ منٹ کی حدتک پہنچنے کے بعد یہ بھی ریٹائرڈ ہوجائے۔ ہرصوبے کی اپنی سپریم کورٹ ہو جو اپیل سننے والی آخری کورٹ ہوگی۔جس طرح چارٹر آف ڈیموکریسی میں اس بات پر اتفاق کیاگیاہے اسی طرح وفاقی آئینی عدالت بھی ہوگی جس میں ہر صوبے کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ججوں کی تقرری کا طریقہ کار چارٹر ڈیموکریسی کی گائیڈلائن کے مطابق ہوگا۔اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ سپریم جوڈیشری میں ججوں کی نشستیں خالی رکھی جائیں۔ چونکہ ہر جج کی ریٹائر ہونے کی تاریخ کاسب کو پتہ ہوگا لہذا ان کی جگہ اورجج کی تقرری کاطریقہ ان کے ریٹائر ہونے سے پہلے مکمل کردیا جائے گا۔ جرائم کے کیسز میں شواہد کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے ضروری قوانین بھی تیار کئے جائینگے اور ضروری انتظامات بھی کئے جائینگے۔