جنوبی ایشیا کے متنازع خطے میں جہاں سیاسی اور عسکری کشیدگیاں روزمرہ کا معمول ہیں، وہاں پانی جیسے قدرتی وسائل پر پائیدار معاہدہ ایک نادر مثال ہے۔ دریائے سندھ کا آبی معاہدہ (Indus Waters Treaty) 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا اور آج تک قائم ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایسا قانونی فریم ورک فراہم کیا جو اب تک کسی بڑی جنگ یا شدید تصادم کا سبب نہیں بن سکا، حالانکہ دیگر تمام شعبے اس قدر پرامن نہیں۔ موجودہ دور میں جب پانی قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے، پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو ایسی حکمت عملی اختیار کرنا پڑی جو پانی جیسے بنیادی وسائل کے تحفظ کو دفاعی اور تزویراتی ترجیحات میں شامل کرے۔ اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار نہایت اہم، دور اندیش اور عملی نوعیت کا ہے۔ ان کی قیادت میں پانی کے مسئلے کو قومی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا گیا اور اسے ملکی دفاع، خارجہ پالیسی اور سفارتی دباؤ کے ساتھ مربوط کیا گیا۔
1948ء میں بھارت نے مشرقی دریاؤں سے پاکستان کو پانی کی فراہمی یکطرفہ طور پر بند کر دی، جس سے پاکستان میں ایک زبردست بحران پیدا ہوا۔ کئی سالہ مذاکرات کے بعد، عالمی بینک کی ثالثی سے 19 ستمبر 1960کو صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان دریائے سندھ کا آبی معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے مطابق: بھارت کو مشرقی دریاؤں کا مکمل اختیار دیا گیا۔ پاکستان کو مغربی دریاؤں پر مکمل حقِ استعمال دیا گیا۔ بھارت مغربی دریاؤں پر چند مخصوص مقاصد (جیسے پن بجلی) کیلئے محدود تعمیرات کر سکتا ہے، بشرطیکہ پاکستان کے بہاؤ میں کوئی کمی نہ ہو۔
گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر کشن گنگا، بگلیہار، رتلے اور دیگر ڈیموں کی تعمیر نے پاکستان کے خدشات کو جنم دیا۔ پاکستان نے متعدد بار عالمی سطح پر بھارت کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی شکایات کیں۔ مسئلہ صرف قانونی نہیں بلکہ قومی بقا کا بھی ہے کیونکہ پاکستان کی 70فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور وہ مغربی دریاؤں کے پانی پر منحصر ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، جو پاکستان آرمی کے پہلے حافظِ قرآن سپہ سالار بھی ہیں، نے قومی سلامتی کے نئے پہلووں پر گہری نظر رکھی۔ ان کی عسکری بصیرت صرف دفاعی حکمت عملی تک محدود نہیں، بلکہ انہوں نے اقتصادی، آبی، اور موسمیاتی سلامتی کو بھی دفاعی دائرہ کار میں شامل کیا۔ عاصم منیر نے پانی کے مسئلے کو تین سطحوں پر دیکھا: عسکری و انٹیلی جنس سطح پر نگرانی، بین الاقوامی سفارتی سطح پر مقدمہ بندی، داخلی سطح پر ادارہ جاتی ہم آہنگی اور اصلاحات۔
عسکری نگرانی اور اطلاعاتی حکمت عملی: بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر غیرق انونی یا نیم قانونی تعمیرات کی نگرانی کیلئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو فعال کردار دیا۔ جدید سیٹلائٹ ڈیٹا، ڈرون مانیٹرنگ اور سفارتی چینلز کے ذریعے بھارت کے منصوبوں پر کڑی نظر رکھی گئی۔ اس کے علاوہ واٹر سیکورٹی سیل کا قیام بھی انہی کے وژن کا حصہ تھا تاکہ پانی کی صورتحال پر جامع اور بروقت رپورٹنگ کی جا سکے۔ ان کی ہدایت پر وزارت خارجہ اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے بھارت کی خلاف ورزیوں پر ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئرز تیار کیے اور پاکستان کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف تک لے جانے کی تیاری کی گئی۔ادارہ جاتی ہم آہنگی اور آبی اصلاحات: فیلڈ مارشل عاصم منیر نے فوج، واپڈا، وزارت آبی وسائل، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر اداروں کے درمیان رابطے کو مضبوط بنایا۔ ان کے وژن کے مطابق، اگر تمام ادارے پانی کے تحفظ اور معاہدے کی پاسداری کیلئے یکسو ہوں تو نہ صرف بھارت کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا ہے بلکہ ملکی پانی کے ذخائر کو بھی بہتر طور پر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈیمز کی بروقت تکمیل، پانی کی چوری کے خلاف کارروائی اور بارش کے پانی کے ذخیرے جیسے منصوبوں کو دفاعی حکمت عملی سے منسلک کیا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا نقطۂ نظر صرف سرحد پار سے خطرات تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے اندرونی خطرات جیسے گلیشیرز کا پگھلنا، شدید موسمی تغیر اور خشک سالی پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے کلائمیٹ سیکورٹی یونٹس کی حمایت کی اور قومی سطح پر آبی ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔کشیدگی کے دوران حکمت و تدبر:فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کشیدگی کے لمحات میں بھی تحمل، تدبر اور قانونی راستے کو ترجیح دی۔ انہوں نے پانی کو جنگ کی وجہ بننے سے روکنے کیلئے سفارت کاری، معلوماتی حملوں (info-warfare)، اور قانونی جنگ کو ترجیح دی۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا وژن صرف موجودہ بحرانوں کا حل نہیں، بلکہ ایک دیرپا حکمت عملی پر مبنی ہے۔ وہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جو اپنے پانی کی حفاظت، مؤثر استعمال، اور ماحولیاتی استحکام کیلئے ٹیکنالوجی، تعلیم، اور قانون سازی کو اپنائے۔جبکہ آبی تعلیم کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے، بارش کے پانی کا ذخیرہ کرنے والے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر، واپڈا اور دیگر اداروں میں شفافیت اور میرٹ پر تقرریاں، صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔
نتیجہ:دریائے سندھ کا آبی معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے، اور اس کی حفاظت پاکستان کے وجود کی حفاظت کے مترادف ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے قومی دفاع کے دائرہ کار کو صرف سرحدوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ پانی جیسے بنیادی مسئلے کو بھی دفاعی ترجیحات میں شامل کر کے قوم کو ایک دیرپا حکمت عملی فراہم کی۔ ان کا وژن، قیادت اور عملی اقدامات پاکستان کو آنے والے برسوں میں پانی کے بحران سے بچانے کیلئے مشعل راہ ہیں۔ پاکستان کو اگر اپنی بقا، ترقی اور استحکام کو یقینی بنانا ہے تو پانی کو محض قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ستون تسلیم کرنا ہو گا — اور یہی وہ شعور ہے جو فیلڈ مارشل کی قیادت میں پروان چڑھ رہا ہے۔