پاکستان کے دہشت گردی کیخلاف مثبت اور فعال کردار کی پوری دنیا معترف ہے اور اس وقت بھی وہ یہ جنگ لڑ رہا ہے جس کا امریکہ نے بھی کھلے عام اعتراف کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دیدیا ہے۔ امریکی سنٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف جنرل مائیکل کوریلا نے بلوچستان میں دہشت گردی اور داعش خراسان جیسی دہشتگرد تنظیموں کیخلاف پاکستان کی جدوجہد کو سراہا۔ داعش خراسان اس وقت عالمی سطح پر سب سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں میں شمار ہوتی ہے انٹیلیجنس تبادلے کے بعد پاکستان نے اس کے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور پانچ اہم دہشتگردوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا ان میں ایبے گیٹ حملے کا مرکزی ملزم جعفر (شریف اللہ) بھی شامل ہے۔ جنرل مائیکل کوریلا کا امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے کہنا تھا کہ 2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ دہشت گرد حملے ہوئے جن میں تقریبا 700 سکیورٹی اہلکار اور شہری شہید اور 2500 زخمی ہوئے۔ جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ ہمیں (امریکہ) پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے ہونگے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہمارا بھارت کے ساتھ تعلق ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ تعلق نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان اور امریکہ نے 10مئی کو واشنگٹن میں دہشتگردی کیخلاف تعاون کی توثیق کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان جیسی دہشتگرد تنظیموں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے باہمی تعاون پر زور دیا تھا اس حوالے سے رواں ماہ پھر بات چیت ہو گی۔ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھی ہیں اور ہنوز جاری ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں۔ داعش یا ٹی ٹی پی کا نام دیدیں سب ایک ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان دہشتگرد تنظیموں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور دہشت گردی میں بھارتی ریاستی کردار کو بھی مشترکہ طور پر ختم کرنا ہوگا۔