مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کی نظریں اس جنگ پر مرکوز ہیں جو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے کا حصہ ہے۔ بظاہر یہ جنگ پاکستان سے دور دکھائی دیتی ہے مگر اس کے اثرات گہرے اور دور رس ہوسکتے ہیں جو پاکستان کیلئے نہایت تشویش کا باعث ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی اور کہا ہے کہ پہلے سے غیر مستحکم خطہ ایران، اسرائیل جنگ سے مزید غیر مستحکم ہوجائے گا۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ جنگ فوری روکنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔
ایران کا جوہری پروگرام شروع دن سے ہی مغربی ممالک اور اسرائیل کو کھٹک رہا ہے، ایسے میں جب جوہری پروگرام پر ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں مذاکرات جاری تھے، اسرائیل کا ایران پر حملہ کھلی جارحیت ہے۔ ایران پر حملے کا جواز پیدا کرنے کیلئے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے IAEA میں ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں کہا گیا کہ ’’ایران عالمی جوہری پھیلائو سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کررہا، ایران ریڈ لائن کراس کرگیا ہے اور اسکے پاس 60 فیصد تک خالص افزود یورنیم ہے جو 9 جوہری بم بنانے کیلئے کافی ہے۔‘‘ ایران کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کے مقاصدکسی سے ڈھکے چھپے نہیں جنکے حصول کیلئے اسرائیل کافی عرصے سے منتظر ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے پر عمل پیرا ہیں جس میں انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایران کے اتحادیوں لبنان، حزب اللہ، حماس اور یمن کے حوثیوں کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنا بھی اِسی حکمت عملی کا حصہ تھا تاکہ ایران کو کمزور کیا جا سکے۔ اسرائیل کا سب سے اہم مقصد ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ایران کی جوہری صلاحیت اسرائیل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اسرائیل، ایران کو کبھی ایٹمی طاقت بننے نہیں دے گا۔ اسی بنا پر حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران کے اہم جوہری سائنسدانوں، جوہری اور بیلسٹک میزائل مراکزکو نشانہ بناکر انہیں تباہ کیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانا بھی اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے تاکہ ایران میں رجیم چینج لاکر اپنی مرضی کی حکومت قائم کی جا سکے۔ اسرائیل نے آیت اللہ خامنہ ای کی رہائش گاہ پر ڈرون سے متعدد قاتلانہ حملے کئے مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ایران کے توانائی منصوبوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانا بھی اسرائیلی منصوبے میں شامل ہے تاکہ اقتصادی دبائو بڑھاکر ایران میں داخلی عدم استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ امریکہ کو بھی اس جنگ میں گھسیٹا جائے تاکہ ایران کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کیلئے ایران کے خلاف جنگ جیتنا سیاسی حیثیت مستحکم بنانے کا سنہری موقع ہے، غزہ جنگ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور وہ ایران سے جنگ کرکے اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت اس جنگ میں کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ بھارت جسکے ساتھ ایران نے ہمیشہ تعاون کیا اور بھارتی دہشت گرد کلبھوشن ایران سے پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا، اُسی بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ سے خود کو الگ کر کے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
پاکستان کی ایران کے ساتھ طویل سرحد ہے، دونوں ممالک کے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں اور یہ تعلقات حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی صورتحال میں لاکھڑا کرتے ہیں جس میں پاکستان، ایران کی کھل کر مدد نہیں کرسکتا۔ پاکستان، اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی کاز کی کھل کر حمایت کرتا ہے لیکن عرب دنیا میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا جو رجحان پیدا ہوا ہے، اس نے پاکستان کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ گوکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے مگر یہ ممالک مذمت سے آگے نہیں بڑھے اور اگر آنے والے دنوں میں ایران، اسرائیل جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو پاکستان پر دبائو ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ ایران سے فاصلہ اختیار کرے۔ اگرچہ پاکستان اس تنازع کا براہ راست فریق نہیں لیکن ایران اسرائیل جنگ پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ وقت جذبات کے بجائے دانشمندی کے ساتھ فیصلے کرنے کا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو نہ صرف غیر جانبدارانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی بلکہ داخلی سلامتی اور علاقائی امن پر بھی نظر رکھنا ہوگی کیونکہ داخلی استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور غیر جانبدارانہ سفارتکاری ہی پاکستان کو اس تنازع سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان کہ ’’اگر آج مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو ایران کے بعد دوسرے اسلامی ممالک کی بھی باری آئے گی‘‘ لمحہ فکریہ ہے۔ ماضی میں عراق پر حملے سے قبل یہ جواز بنایا گیا تھا کہ عراق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنارہا ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں تھا اور اس کا مقصد صدام حسین کا خاتمہ تھا۔ آج نیوکلیئر پروگرام کا جواز بناکر ایران پر اسرائیلی جارحیت، آیت اللہ خامنہ ای کو راستے سے ہٹاکر ایران میں رجیم چینج لانا اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے جس میں اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑئیگا۔