آئیے آپ سے چند باتیں کرتے ہیں، مختلف مسائل پر تو کالم اور مضامین آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں اور ان کے بارے میں آپ کوئی نہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہونگے لیکن آج آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ملک عزیز کی اکثریت کی زندگی کا وجود دور کٹھن ہے،مشکلات میں گرفتا رزندگی میں انتشار ہونا ناگزیر ہے، یہ انتشار نظریاتی بھی ہے ،سیاسی اور معاشرتی بھی، ہم سب اپنی اپنی انفرادی زندگی کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن اس بات سے تو آپ بھی انکار نہیں کر سکتے کہ انفرادی مشکلات کے باوجود ہم میں یہ احساس روز بروز پیدا ہو رہا ہے کہ ہماری انفرادی الجھنوں اور مسائل کی ذمہ داری ہماری معاشرتی زندگی پر عائد ہوتی ہے، یہ احساس معاشرتی شعور کی پہلی سطح ہے ،تعلیم یافتہ، نیم تعلیم یافتہ،اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان پر یہ کلمہ ضرور آتا ہے کہ حکومت یہ نہیں کرتی ،وہ نہیں کرتی۔ مہنگائی ہو یا جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار ،کرپشن ہو یا رشوت ستانی ،ٹریفک کا مسئلہ ہو یا سڑکوں کی مرمت کاکام ہم سب حکومت ہی کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اگر ہمارے ان جذبات کو معاشرتی شعور سے تعبیر کیا جائے تو پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہم سب لاشعوری طور پر ہی سہی ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جو ہمارے تمام معاشرتی ،معاشی، سماجی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کی ذمہ دار ہو ۔ہماری یہ خواہش بھی غیر شعوری کہی جا سکتی ہے کہ شعوری طور پر آسودہ زندگی ہمارا انفرادی مطمح نظر ہے اور آسودگی مال و دولت اور زر کے بغیر ممکن نہیں ،چنانچہ زر سرمایہ یا دولت کے حصول کے لیے ہم دن رات مصروف رہتے ہیں،ہمارا ہر کام سرمایہ حاصل کرنے پر مبنی ہوتا ہے لیکن ہماری اس تگ و دو اور جدوجہد اور ہماری معاشی و معاشرتی زندگی میں تضاد موجود ہوتا ہے، یہی تضاد ہماری ذہنی پریشانی کا موجب ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی ،معاشرتی یا انفرادی زندگی کے اس تضاد کو کیسے دور کیا جائے کہ جب تک انفرادی اور معاشرتی زندگی میں توازن نہیں پیدا ہوگا اس وقت تک انفرادی طور پر بھی سکون و راحت و اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں ان نظریات میں وہ لوگ جو انفرادی زندگی کو معاشرتی زندگی کا منبع قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اخلاق اور مذہبی لگاؤ اختیار کرنے سے معاشرے کی حالت خود بخود درست ہو جائے گی، یہ نظریہ انفرادی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ انفرادی اہمیت کا معیار سرمایہ اور مال و دولت ہے اگر آپ کے پاس زر سرمایہ اور مال و دولت نہیں تو آپ کی اہمیت بے معنی ہے یہاں تک کہ ہمارے معاشرے میں اہل علم حضرات بھی سرمایہ سے تہی دامن ہو تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔لہذا ہم اپنے گردو پیش کے حقائق اور زندگی کے رجحانات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نہ صرف ہماری انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کا محور سرمایہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ آتا کہاں سے ہے اور اس کی تقسیم اور ملکیت کا کیا راز ہے ؟عام سی بات ہے کہ انسان کو جب اس کے بھلے کی بات کہی جائے تو وہ اسے دیر یا بدیر اختیار کر لیتا ہے لیکن 77 برسوں سے مسلسل ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کچھ ایسی ڈگر پر چل رہی ہیں جہاں بھلائی اور نیکی محض خالی خولی الفاظ رہ گئے ہیں جب ہم معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا زاویہ نگاہ بھی انفرادی اور نجی قسم کا ہوتا ہے، ہر فرد لاشعوری طور پر مادہ پرست ہے یعنی ہر شخص خارجی زندگی میں اپنا مستحکم مقام بنانے کے در پے ہے اور اس کے لیے وہ ہر ذریعے کو اختیار کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہے۔آسودہ زندگی ہر فرد کا نصب العین ہے۔ آسودگی سرمایے سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ سرمایے کا اصول ہر فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کا محور بن چکا ہے اس کے گرد ہمارے معاشرے کی زندگی گھوم رہی ہے۔ سوال پھر وہی آ تا ہے کہ جس سرمائے کے لیے ہم یہ سب جتن کرتے ہیں وہ آتا کہاں سے ہے؟ پیداواری عمل جو مختلف مراحل میں تمام معاشرتی زندگی پر حاوی ہے اس عمل کی بنیاد محنت ہے۔اناج پیدا کرنے سے لے کر کسی کارخانے میں کوئی چیز تیار کرنے میں محنت ہی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہے اس سے سرمایہ مخصوص طبقے کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اور جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام کی بنیاد یہی نجی ملکیت ہے۔ نجی ملکیت کو ختم کر دیا جائے (یا ایک حد تک) اور ذرائع پیدا وار پر ان لوگوں کی ملکیت تسلیم کی جائے جو پیداواری عمل میں شامل ہو تو اس سے معاشرے کے ہر فرد کی زندگی پر اچھا اثر پڑے گا۔ ایسے معاشرے میں حکومت کا تصور بھی وہ نہیں رہتا جو ہمارے ہاں گزشتہ 77 برس سے جاری ہے ہم میں سے ہمیشہ صاحب اثرو رسوخ عوام کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور صاحبِ اثرو رسوخ وہی ہوتے ہیں جو صاحب املاک ہوں لیکن جب سرمایےکی نوعیت میں فرق آجائے گا تو اس سے منتخب نمائندے کی حیثیت و شخصیت میں بھی فرق آجائے گا۔ صاحب اثر ہونے کیلئے سرمائے کی جگہ علم، دانش، تجربہ اور لوگوں کی خدمت معیار ٹھہرے گا یا ٹھہرایا جائے گا ۔اور یوں نظام میں تبدیلی پیدا ہوگی۔ لیکن ایسے نظام کو وہ لوگ رد کرتے ہیں بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں جو نجی ملکیت کو ایک عطیہ ربانی سمجھتے ہیں وہ نجی ملکیت کا جواز مذہب اور روایات میں پیش کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی لوگ معاشرے کی زبوں حالی اور انفرادی اخلاق کی پستی کے بارے میں زیادہ چیختے ہیں۔
اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے تضاد پر غور کریں ورنہ بقول حفیظ جالندھری۔ ’’ہم جس مقام پر ہیں وہاں سب مزے میں ہیں‘‘ خسارے میں اگر کوئی ہے تو وہ ملک ہے، قوم ہے، معاشرہ ہے اور آزادی ہے۔
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے