• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے 11دسمبر 2017ءکو ’’بٹ کوائن، نئی ڈیجیٹل کرنسی‘‘ پر ایک کالم تحریر کیا تھا جس میں کرپٹو کرنسی کی سب سے مشہور کرنسی بٹ کوائن کے بارے میں بتایا تھا۔ بٹ کوائن ڈالر، پائونڈ اور یورو سے مختلف کرنسی ہے جو بینکوں کے کنٹرول سے باہر ہے اور اسی وجہ سے بٹ کوائن کی قدر غیر یقینی رہتی ہے۔ دسمبر 2017ءمیں بٹ کوائن کی قیمت 20 ہزار ڈالر BTC کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی اور لوگ تیزی سے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کررہے تھے لیکن 2 فروری 2018 ءکو بٹ کوائن کی قیمت گرکر آدھے سے بھی کم 7614ڈالر پر آگئی۔ جنوری 2018ء میں بٹ کوائن میں مجموعی سرمایہ کاری 700 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن نقصان سے بچنے کیلئے سرمایہ کاروں کی گھبراہٹ میں فروخت سے بٹ کوائن مارکیٹ کریش ہوئی اور سرمایہ کاروں کی آدھی سے زیادہ رقم ڈوب گئی جسکے باعث میں نے 19 فروری 2018 کے کالم میں بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کو ہائی رسک قرار دیا تھا۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی غیر رسمی مارکیٹ میں لین دین کے بارے میں دوبارہ خبریں، امریکی دبائو کی افواہیں اور حکومت کی ڈیجیٹل کرنسی میں دلچسپی نظر آئی۔ اسی دوران حکومتی سطح پر نہ صرف کرپٹو کونسل بنائی گئی بلکہ حکومت کی جانب سے بٹ کوائن مائننگ کیلئے 2000 میگاواٹ بجلی سستے نرخوں (8 سینٹ فی کلو واٹ) مختص کی گئی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کرپٹو کونسل کے CEO بلال بن ثاقب کو بلاک چین اور کرپٹو کرنسی کا وزیر مملکت اور اپنا معاون خصوصی مقرر کردیا۔ اس تمام پیشرفت کے مدنظر میں نے اور میری ساتھی رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ریونیو میں کرپٹو کرنسی کی ملک میں قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جس کے جواب میں اجلاس میں شریک اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بتایا کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر ملک میں پابندی عائد ہے اور ابھی تک اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اجلاس میں موجود وفاقی سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے مزید بتایا کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر پابندی ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے گزشتہ ہفتے امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں ’’بٹ کوائن 2025‘‘ کی تقریب میں حکومتی تحویل میں پہلے بٹ کوائن ریزرو کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت پاکستان بٹ کوائن کو قومی ذخائر کا حصہ بنانے جارہی ہے۔ نیشنل بٹ کوائن والٹ میں ہمارے ملک کے بٹ کوائنز ہوں گے جنہیں ہم فروخت نہیں کریں گے بلکہ وہ ہمارے ذخائر کا حصہ ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ FATF کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو کرپٹو کرنسی کی عالمی مارکیٹ میں ڈیجیٹل معیشت سے جوڑا جائے گا۔ میرے نزدیک ان دونوں بیانات میں ایک کنفیوژن اور تضاد نظر آتا ہے اور اگر حکومت نے فوری طور پر کرپٹو کرنسی پر اپنی پالیسی کا واضح اعلان نہ کیا تو بے شمار نوجوانوں کی بٹ کوائن میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ڈوب سکتی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر بلال بن ثاقب کے مطابق 2کروڑ پاکستانی کرپٹو کرنسی بزنس سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں کرپٹو کرنسی میں گزشتہ ایک سال میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے لہٰذا اگر کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دی گئی تو پاکستان کو کثیر ریونیو اور زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس اہم پالیسی بنانے کیلئے اعتماد میں لینا ہوگا کیونکہ کرپٹو کرنسی یعنی بٹ کوائن کے ذریعے پاکستان سے پیسوں کی بیرون ملک منتقلی کا خدشہ ہے جو FATF قوانین کے خلاف ہے۔ میں نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا کہ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ جلد ہی اس کیلئے ایک جامع اور قانونی ریگولیٹری فریم ورک تیار کرے تاکہ نوجوانوں کی بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کو تحفظ دیا جاسکے۔

آج کے دور میں صارفین ڈیبٹ کارڈ کی طرح بٹ کوائن کے ذریعے خریداری کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کچھ شہروں میں اب بٹ کوائن سے پیزا اور روزمرہ استعمال کی معمولی اشیاء بھی خریدی جاسکتی ہیں۔ 2001 میں جب بٹ کوائن متعارف کروایا گیا تھا تو اس کی قیمت ایک ڈالر فی یونٹ تھی لیکن اس کی ویلیو میں مسلسل اضافہ سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش بنتا گیا اور آج بٹ کوائن کی فی یونٹ قیمت ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ اور مارکیٹ کیپٹلائزیشن 2 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ دنیا میں اس وقت 119 ممالک میں کرپٹو کرنسی قانونی ہے لیکن صرف 62 ممالک نے ریگولیٹری فریم ورک وضح کئے ہیں جن میں ٹیکس لگانے، اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور صارفین کے تحفظ کے اقدامات شامل ہیں۔ دبئی اور ابوظہبی تیزی سے بلاک چین کا مرکز بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ، چین، روس، کینیڈا اور قازقستان بھی کرپٹو کرنسی کا گلوبل شیئر رکھتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ابھی تک کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت نہیں دی ہے۔ SECP پالیسی سازی میں ضرور شامل ہے لیکن اس پر عملدرآمد پر خاموش ہے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا منصوبہ اس وقت اہم مرحلے میں ہے لیکن حکومت کو قانونی ابہام دور کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کیلئے یہ فیصلہ صرف معاشی نہیں بلکہ عوامی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔

تازہ ترین