امریکہ نے ایک بار پھر دنیا بھر کو دغا دے دیا۔ امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کیلئے دنیا کے امن کو خطرہ میں ڈال دیا۔ امریکہ نے ایک بار پر دنیا کو ایک بڑی جنگ کے سنگین خطرات میں جھونک دیا۔ امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کی اسلام دشمنی اور دہشت گردی میں اُس کے ساتھ ہے۔ ایک حقیقت پھر ثابت ہو گئی کہ امریکہ خود ایک دہشت گرد ریاست ہے جس کو نہ کسی قانون کا پاس ہے نہ کسی اخلاقیات کا۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ یقیناً یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔ اتوار کو صبح سویرے امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس خبر نے پاکستان سمیت پوری دنیا میںہل چل مچا دی۔ٹرمپ نے پاکستان اور کچھ یورپین ممالک سمیت سب کو دھوکہ دے دیا۔ کہا تو گیاتھا کہ ٹرمپ دو ہفتوں تک انتظار کریں گے اور اگر بات چیت سے کوئی راستہ نکلتا ہے تو اُس کو ترجیح دی جائیگی۔ کچھ یورپین ممالک ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ کو روکنےکیلئے بات چیت کر رہےتھے۔ پاکستان کو بھی امریکہ نے یہی لارا لگایا کہ آپ بھی پر امن طریقہ سے اس جنگ کو روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن پھراچانک ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کر دیا جسکے جواب میں ایران نے اسرائیل پر مزید میزائل داغ دیے اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُس کے ایٹمی پروگرام کو نقصان نہیں پہنچا کیوں کہ حملے سے پہلے ہی ایٹمی مواد کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا چکا تھا۔ متعلقہ عالمی اداروں نے بھی یہ کنفرم کیا ہے کہ امریکی حملوں سے تابکاری کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ گویایہ تو ابھی کنفرم ہونا باقی ہے کہ کیا امریکہ اس حملے میں اپنا مقصد حا صل کرنے میں کامیاب ہوا یا ناکام لیکن اس حملے نے پوری دنیا کیلئےنئے خطرات پیدا کر دیےہیں۔ اس حملے کے فوری بعد پاکستان میں سب بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ اب ہم ایران پر اس امریکی حملہ پر کیا موقف اپنائیں گے۔ حال ہی میں ٹرمپ پاکستان کی محبت میں بہت آگے تک جاتا ہوا نظر آیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت بڑی تبدیلی کے اشارے ملنے لگے۔ ایک طرف پاک بھارت جنگ کے بعد ٹرمپ پاکستان کے حق میں بار بار بولتا ہوا نظر آیا، بھارت کو چڑاتا دکھائی دیا، آئی لو پاکستان (I love Pakistan)بھی کہہ دیا اور ہمارے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں کھانے پر بھی بلا لیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم پاکستان کو بھی فون کیا اور پاکستان کی ایران اسرائیل جنگ کے پرامن حل کی کوششوں کو سراہا اور اسکی حوصلہ افزائی کی۔ اس ماحول میں حکومت پاکستان نے اچانک صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائزکیلئے نامزد کر دیا جسے کسی نے ماسٹر اسٹروک گردانا اور کسی نےاس پرتنقید کی۔ اس پر سب سے بہترین تجزیہ خواجہ سعد رفیق صاحب کی طرف سے آیا۔ اُنہوں نے سوشل میڈیا میں بیان دیا’’جسے چارہ ڈال رہے ہیں، وہ کھائے گا بھی اور دولتی بھی مارے گاـ‘‘۔ اور یقیناً ٹرمپ نے ایسا ہی کیا۔ اُنہوں نے امن کے نوبل پرائز کیلئے نامزدگی کا چارہ کھا بھی لیا اور پھر دولتی بھی مار دی۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے بڑی مشکل ہو گی۔ پاکستان کی کوشش تھی کہ ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کے نام پراستعمال کرکے ایران اسرائیل جنگ کو رکوانے کا رستہ نکال لیا جائے لیکن ٹرمپ نے تو اس کے برعکس ہی کر دیا۔ یہ اچھا ہوا کہ دفتر خارجہ کی طرف سے ایران پر امریکی حملے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ایران پر امریکی حملہ اسرائیلی حملوں کا تسلسل ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ معاملہ اب رہ گیا ٹرمپ کیلئے پاکستان کی طرف سے امن کے نوبل پرائز کی نامزدگی کا۔ یہ نامزدگی اگر پہلے متنازعہ تھی تو اب ناقابل قبول ہو چکی۔ اس بارے میں حکومت پاکستان کیا کرتی ہے یہ دیکھنا اہم ہو گا۔ باقی جہاں تک ایران کا معاملہ ہے ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اُس کے ساتھ کھڑے رہنا ہے کیونکہ یہ جنگ اسلام اور کفر کے درمیان ہے۔