• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024 ء کے ’’بد عنوانی تاثر اشاریہ‘‘ (Corruption Perception Index, CPI )کے مطابق پاکستان 180میں سے 135 ویں نمبر پرہے ۔اس پیمائش کے مطابق وطن عزیز کا بین الاقوامی سطح کی بدعنوانی میں دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔بدعنوانی سب سے سنگین مسائل میں سے ایک ہے، جو حکومتی نظام کو کمزور کرتی ہے، معیشت کی رفتار کو سست کرتی ہے اور عوام کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو متزلزل کرتی ہے۔بد عنوانی کی کئی اہم وجوہات ہیں۔ سب سے نمایاں وجہ ادارہ جاتی نظام کی کمزوری ہے۔ احتساب کے ذمہ دار ادارے، جیسے قومی احتساب بیورو (National Accountability Bureau)، اور سارا انصاف کا نظام بہت کمزور ہے ۔اسی طرح، انتظامی کاموں میں شفافیت کی شدید کمی ہے۔ سرکاری خریداری، نیلامی (tendering)اور معاہدوں (contracts) کے معاملات میں غیر شفاف طریقۂ کار بدعنوانی کی بڑھوتری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک اور سنگین مسئلہ عدالتی نظام کی کمزوری ہے، جوبدعنوانی کے مقدمات میں مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ عدالتی نظام تاخیر کا شکار ہے اور سزا کی شرح نہایت کم ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے 2023ء کے نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے(National Corruption Perception Survey) کے مطابق، پولیس ملک کا سب سے کرپٹ ادارہ تصور کیا جاتا ہے، اس کے بعد سرکاری خریداری اور عدلیہ کا نمبر آتا ہے۔

ایسے میں، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence, AI) بدعنوانی کیخلاف عالمی جدوجہد میں ایک نیا مؤثر ہتھیار بن کر سامنے آئی ہے۔ AI کی صلاحیتوں میں وسیع مواد (Datasets) کا تجزیہ، معلومات / مواد کا طریقہ کار (pattern)شناخت کرنا، خودکار فیصلے کرنا اور شفافیت (transparency)کو بڑھانا شامل ہے، جو حکومتوں اور اداروں کو بدعنوانی کی نشاندہی، پیش گوئی اور تدارک کیلئے ایک طاقتور ذریعہ فراہم کرتی ہے۔AI کئی طریقوں سے بدعنوانی کے خلاف کارگر ہو سکتی ہے۔ AI پیچیدہ معلومات کا تجزیہ کرنے اور ایسی بے قاعدگیوں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتی ہے جو انسانی معائنہ کنندگان (Auditors) کی نظر سے اوجھل رہ سکتی ہیں۔ مثلاً، سرکاری خریداری، ٹیکس ریکارڈ یا سرکاری فنڈز کی تقسیم جیسے معاملات میں AI الگورتھم

(AI Algorithm) چند منٹوں میں لاکھوں لین دین (transactions)کا تجزیہ کر کے رشوت، فراڈ یا خردبرد کے ممکنہ شواہد سامنے لا سکتی ہے۔ مشین لرننگ (Machine Learning) کی مدد سے یہ نظام مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہے اور جیسے جیسے ڈیٹا بڑھتا ہے، ان کی پیش گوئی کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

بعض ممالک میں AI کے ذریعے بدعنوانی کے خلاف کامیاب اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں۔ برازیل اس کی ایک مؤثر مثال ہے، جہاں طویل عرصے سے سرکاری بدعنوانی کے بڑے انکشافات ، جیسے’’آپریشن کار واش‘‘ (Operation Carwash)، سامنے آتے رہے ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے برازیل نے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور روبو لارا ( Robo Laura) نامی AI نظام تیار کیا، جو سرکاری معاہدوں پر نظر رکھتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکاری بنیادی ڈھانچے کے معاہدوں میں بے ضابطگیاں بروقت سامنے آ گئیں، اور ملک کو کروڑوں ڈالر کے نقصان سے بچا لیا گیا۔بھارت میں بھی AI کا کامیاب استعمال ہو رہاہے۔ وہاں انسائٹ (Insight) نامی منصوبے کے ذریعے ٹیکس نظام میں بہتری لائی گئی۔ بھارت میں غیر رسمی معیشت اور آمدنی چھپانے کی روایت عام رہی ہے۔ اس منصوبے نے ٹیکس فائلنگ (Tax Filing)، بینک ٹرانزیکشنز (Bank transactions)، جائیداد کے ریکارڈ اور سوشل میڈیا سرگرمیوں کو آپس میں جوڑ کر غیر قانونی آمدن کا سراغ لگایا۔ نتیجتاً ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا، خود سے فائل کرنے والوں کی تعداد بڑھی اور انسانی مداخلت بھی کم ہوئی۔

جنوبی کوریا کی ڈیجیٹل طرزِ حکمرانی میں سرمایہ کاری نے اسے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ مختلف وزارتوں سے حاصل ہونے والی وسیع معلومات کو مرکزیت دے کر مؤثر انداز میں تجزیہ کر سکے ۔ایک کلین پورٹل ( Clean Portal)کے نام سے AI کانظام قائم کیا گیا ہے جو مالیاتی انکشافات، سرکاری معاہدے اور سرکاری ملازمین کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ نظام جب ظاہر کردہ اثاثوں کا موازنہ خریداری کے فیصلوں یا معاہدوں کی الاٹمنٹ کے انداز سے کرتا ہے، تو ممکنہ مفادات یا ناجائز دولت کے حصول جیسے عوامل کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ایسٹونیا (Estonia) جو یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے وہاں AI کو مکمل طور پر سرکاری نظام میں ضم کر دیا گیا ہے۔ وہاں ٹیکس وصولی، صحت، ووٹنگ اور کاروباری رجسٹریشن جیسے تمام شعبے ڈیجیٹل ہیں۔ انکا مقصد صرف کارکردگی نہیں بلکہ بد عنوانی کے امکانات کو کم کرنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسٹونیا (Estonia) کا یورپ کے سب سے کم بد عنوان ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

پاکستان میں بھی ایک کامیاب تجربہ ’’علمی معیشت پر مبنی ٹاسک فورس‘‘ (Knowledge Economy Task Force) کی میری سربراہی میں کیا گیا، جس میں نادرا (NADRA) اور ایف بی آر (Federal Board of Revenue, FBR) کے اشتراک سے AI کا استعمال کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت 38لاکھ ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی جن کی آمدن بہت زیادہ تھی مگر وہ ٹیکس فائلر نہیں تھے اور ہر ایک پر کم از کم ایک لاکھ روپے ٹیکس واجب الادا تھا۔ اس طرح 1.6 کھرب روپے کا ممکنہ غیر ادا شدہ ٹیکس سامنے آیا۔یہ منصوبہ بغیر کسی سرکاری خرچ کے صرف تین ماہ میں مکمل ہوا ۔ اس کے نتیجے میں 3کھرب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے، 65ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا ہوا، 90,000 سے زائد افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے، اور ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی – جو ایف بی آر کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس ماڈل کو ملک بھر میں لاگو کیا جا سکتا ہے، جس میں ٹیکس فائل نہ کرنے والوں پر سفری اور دستاویزی پابندیاں بھی شامل ہوں۔

تاہم، AI کے مؤثر استعمال کیلئے بعض اہم رکاوٹوںپر قابو پانا ضروری ہے۔ سب سے اہم مسئلہ ڈیٹا کی معیاریت اور دستیابی کا ہے۔ AI نظام اسی صورت میں درست نتائج دیتا ہے جب اس کے پاس مکمل، مربوط اور معیاری ڈیٹا ہو، جو اکثر ممالک میں دستیاب نہیں ہوتا۔ ناقص یا ادھورا ڈیٹا AI کی کارکردگی کو محدود کر دیتا ہے۔اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکومت کو ریکارڈز کو مکمل طور پر ڈیجیٹل بنانا ہوگا، مختلف نظاموں کو آپس میں ہم آہنگ کرنا ہوگا، اور کھلے ڈیٹا کے اصول اپنانے ہوں گے۔ شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے AI کے فیصلے اور الگورتھم (algorithm) عوام کیلئے قابلِ جانچ ہونے چاہئیں، تاکہ غلط استعمال نہ ہو۔ اس مقصد کیلئے سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ شامل ہو کر اعتماد اور جدت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ، قانونی تحفظات اور رازداری کے اصول بھی لازمی ہیں۔ تکنیکی صلاحیت بڑھانے کیلئے تعلیم، تربیت اور بین الاقوامی اشتراک ناگزیر ہے۔لیکن ان سب سے بڑھ کر جو چیز ضروری ہے وہ ہے: سیاسی عزم — اور بدقسمتی سے، یہی وہ چیز ہے جو مفقود ہے۔

تازہ ترین