پنشن وصول کرنے والے بھائیو! اور بہنو عقل کے ناخن لو…سرکار نامدار کے منہ سے نکلی ہوئی بات پہلے غور سے سنا کرو، بات کی تہہ تک پہنچا کرو اور اس کے بعد اپنا منہ مبارک کھولا کرو خواہ مخواہ تنقید کے تیر لیکر سرکار کی گھات میں مت بیٹھا کرو مت سوچا کرو کہ سالانہ بجٹ آناً فاناً تیار ہوجاتا ہے ایک سرکار کو سال کے تین سو پینسٹھ دن لگاتار محنت کرنی پڑتی ہے تب جاکر سالانہ بجٹ تیار ہوتا ہے آپ ثقافتی طور پر چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات پر بہلے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا سرکاری کاروبار میں میرے بھائی بجٹ، کلرک ، ہیڈ کلرک، آفس سپرنٹنڈنٹ اور سیکشن آفیسر نہیں بناتے ، بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں دنیا بھر کے ہم مقروض، قرض دینے والوں اور مالی معاونت کرنے والوں سے پوچھ کر بجٹ بناتے ہیں ، آپ عوام سے پوچھ کر بجٹ نہیں بناتے ہیں پاپڑ صرف دال کے بیلے جاتے، مقروض ممالک کیچڑ کے بھی پاپڑ بیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، آپ جب اتفاق سے ایک مقروض ملک کے ہر دلعزیز حکمران بن جاتے ہیں تب جاکر آپ کو پتا چلتا ہے کہ بجٹ کیا ہوتا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے اس لئے میری گزارش ہے آپ سے، پنشن وصول کرنے والوں سے کہ عقل کے ناخن لیں خواہ مخواہ اقتصادیات میں ٹانگ مت اڑائیں ،بڑھاپے میں ہڈی پسلی ٹوٹ جائے تو بڑی مشکل سے بن پاتی ہے آپ اپاہج ہوجاتے ہیں۔ میں کبھی بھی بجٹ پر تنقید نہیں کرتا ،بجٹ پر تنقید میں تب کرتا جب میرے عقل کے ناخن ہوتے، نوے برس کی عمر کو پہنچتے پہنچتے میں اپنی عقل کے ناخن گنوا چکا ہوں ، دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ کسی تفتیش کے دوران تفتیش کرنیوالے سیانوں نے پلاس سے کھینچ کر مجھے ہاتھوں اور پیروں کےناخنوں سے محروم کردیا ہے ، مگر ایسا نہیں ہوتا ،میرے پنشن پر گزارہ کرنے والے بھائیو اور بہنو، ستر اسی برس کا ہونے سے پہلے آپ ناخن کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں آپ ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتے آپ ٹھیک سے بول نہیں سکتے آپ ٹھیک سے سن نہیں سکتے آپ ٹھیک سے ہردلعزیز حکمرانوں کی بات سمجھ نہیں سکتے ، یاد رکھیں کہ لنڈا بازار میں پھٹے پرانے کپڑے نہیں بکتے ، آپ فقیر کی بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں، بات سمجھ میں آجانے کے بعد آپ بجٹ پر تنقید کرنا چھوڑ دیں گے۔
میری طرح چونکہ آپ کے بھی عقل کے ناخن غائب ہوچکے ہیں اس لئے آپ کو بجٹ پر تنقید سے پرہیز کرنا چاہئے ، میں کوئی اتنا عقل مند بھی نہیں ہوں کہ بجٹ کو نظر انداز کردوں اور تنقید سے کنارہ کشی کروں ، میرے عقل کے ناخن گم ہوچکے ہیں مجھے کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہر دل عزیز حکمرانوں کے بجٹ میں بیواؤں کو دس برس بعد پنشن بند کرنے کی نوید کیوں سنائی گئی ہے ؟ آپ جانتے ہیں نا ںکہ بیوہ کس کو کہتے ہیں؟ دیسی زبانوں میں بیوہ یا بے واہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر یعنی ہزبنڈ یعنی میاں، اللہ میاں کو پیارا ہوچکا ہو ، یعنی شوہر نامدار کو اللہ سائیں نے اپنے پاس بلا لیا ہو، ایسی عورت کا گزر بسر شوہر مرحوم کے نام پر اس کو ملنے والی پنشن سے ہوتا ہے بیوہ کو گھر بیٹھے عزت کی روٹی مل جاتی ہے وہ سرکار نامدار اور اللہ سائیں کی شکر گزار رہتی ہے کہ بیوہ ہوجانے کے بعد اس کو دوسرے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
ہر دل عزیز حکمرانوں کے سیانوں نے کھوج لگا لیا ہے اور سرکار نامدار کو آگاہ کردیا ہے کہ بیوہ ہوجانے کے بعد بیوائیں بہت لمبی عمر تک زندہ رہتی ہیں ایک لا محدود عرصے تک سرکار نامدار کو پینشنوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس سے بجٹ ڈانواں ڈول ہوجاتا ہے۔ ہر دل عزیز سرکار نامدار نے عالمی اداروں سے صلاح مشورے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ایک بیوہ کو زیادہ سے زیادہ دس برس پنشن دی جائے گی اس کے بعد سرکار اس کو پنشن دینا بند کردے گی۔ باوثوق ذرائع سے پتا چلا ہے کہ دس برس بعد زندہ رہنے والی بیواؤں کو سرکار نامدار ایک ایک کشکول دے دیگی تاکہ وہ عالمی اداروں ، سخی باواؤں سے امداد زکوۃ اور خیرات مانگ کر عزت کی زندگی گزار سکیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی بیواؤں کو بڑی تعداد میں کشکول دینے کا ہماری ہر دل عزیز سرکار نامدار سے وعدہ کرلیا ہے ، بیواؤں کی فلاح و بہبود کے لئے آئی ایم ایف نے ہماری حکومت سے بے شمار کشکول دینے کا تحریری معاہدہ کرلیا ہے امداد دینے والے ادارے کبھی بھی ہمارے یہاں کشکول کم پڑنے نہیں دیں گے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہر دل عزیز سرکار نامدار نے ملک کو کشکولوں میں خود کفیل کردیا ہے ، بیوہ بن جانے کے دس برس بعد ایک بیوہ باقی ماندہ زندگی ہاتھ میں کشکول لے کر زندہ رہے گی مرجانے کے بعد اس کا کشکول اس کے ساتھ قبر میں دفن کردیاجائے گا ، ایسی عالمانہ باتیں آپ کی سمجھ میں تب آتی ہیں جب آپ کے عقل کے ناخن ہوتے ہیں ۔