• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2025 کا سال فن اور سیاست کے تصادم کی ایک اور مثال لے کر آیا۔ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ سکھ گلوکار دلجیت دوسانجھ، نے پاکستان کی معروف اداکارہ ہانیہ عامر کے ساتھ فلم Sardar Ji میں کام کیا اوراچانک اپنی شناخت کے باعث نشانے پر آ گیا۔ یہ فلم بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی سے پہلے شوٹ ہوئی، مواد مکمل طور پر تفریحی ہے، مگر بھارت میں اس فلم کی ریلیز کے بعد ایسا ردعمل سامنے آیا گویا کسی نے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔دلجیت کو ’’غدار‘‘کہہ کر پکارا جانے لگا۔ اس پر یہ الزام لگا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کے خلاف کوئی سازش کی ہے۔ حالانکہ اصل جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک‘‘سکھ’’ہے۔ یہی سکھ ہونا ایک شک کی بنیاد بن گیا۔ یوں دلجیت دوسانجھ کی تخلیقی آزادی، بلکہ وجود ہی کٹہرے میں آ گیا۔ یہ صرف ایک فلم پر نہیں، ایک پوری قوم کی شناخت پر حملہ تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق اُلٹیں تو ایک مسلسل جدوجہد اور جبر کی داستان ملتی ہے جو سکھ قوم پر بھارتی ریاست کی جانب سے مسلط کی گئی۔ جون 1984 میں جب بھارتی فوج نے دربار صاحب امرتسر پر حملہ کیا، تو وہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، وہ ایک مذہبی یلغار تھی۔ عبادت میں مصروف سکھ مردوں، بچوں، عورتوں، اور دربار صاحب کے خادموں تک کو مرڈالا گیا۔ گورو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب سکھ قوم نے محسوس کیا کہ ان کی شناخت، انکے مذہب اور انکے وجود کو ریاستی طاقت سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسی سال اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور دیگر شہروں میں سکھوں کے خلاف منظم قتل عام ہوا۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، بلکہ کئی جگہوں پر حملہ آوروں کی مدد بھی کی۔ تین ہزار سے زائد سکھوں کو مار دیا گیا، مگر آج تک کسی کو اس کا حساب نہیں دیا گیا۔ یہ وہ لمحات تھے جب سکھ قوم کے دل میں’’خالصتان‘‘کاخواب حقیقت بن کر ابھرنے لگا۔ ایک علیحدہ وطن، جہاں انکی مذہبی، ثقافتی اور انسانی شناخت محفوظ ہو۔

آج بھی بھارتی آئین سکھ مذہب کو الگ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے ہندو مت کا حصہ قرار دیتا ہے۔ یہ صرف ایک قانونی نکتہ نہیں، ایک نظریاتی حملہ ہے۔ سکھ قوم جو اپنے رسم و رواج، اپنے عقائد کے ساتھ ایک مکمل مذہب رکھتی ہے، اسکی خودمختاری کو انکار کی زبان میں تبدیل کرنا، صرف عدمِ شناخت نہیں، ایک منظم استحصال ہے۔

پنجاب کے وسائل کی مسلسل لوٹ مار، زرعی پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور سکھ کسانوں کی خودکشیاں اس استحصال کی دوسری شکلیں ہیں۔ سکھ کسان کا پنجاب جو کبھی’’اناج کے ذخیرے’‘‘کہلایا ، آجاسی پنجاب کےکسان قرض، افلاس اور حکومتی بے حسی کے باعث زندگی سے ہار مان رہے ہیں۔ منشیات کی یلغار نے پنجاب کے نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ رپورٹیں کہتی ہیں کہ اسکے پیچھے خود سیاستدانوں اور پولیس کی سرپرستی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سکھ نوجوان بیدار نہ ہوں، بغاوت کی سکت نہ رکھیں اور اپنی شناخت سے بے پروا ہو جائیں۔

سکھ نوجوانوں کی آواز بننے والے فنکار، جیسے سدھو موسے والا، جب قتل کیے جاتے ہیں تو ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ بیرون ملک، جہاں سکھ اپنی شناخت کے تحفظ کیلئے کام کر رہے ہیں، وہاں بھی بھارتی ایجنسیاں ان کا تعاقب کرتی ہیں۔ 2023 میں کینیڈا میں ہر دیپ سنگھ نجار کا قتل، جس پر خود کینیڈین وزیرِاعظم نے بھارت پر الزام لگایا، اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف بھارت کا داخلی نہیں، ایک بین الاقوامی انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔

یہ تمام واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت میں سکھ قوم کیلئے جگہ تنگ کی جا رہی ہے۔ ان کی سیاسی نمائندگی کمزور ہے، انکے مسائل پر دہلی کے وہ لوگ فیصلے کرتے ہیں جو پنجاب کی زبان، زمین اور درد کو سمجھتے تک نہیں۔ ان کی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، نصاب میں ان کے کردار کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور عالمی سطح پر ان کی پرامن جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔

اگر دنیا واقعی اقوام متحدہ کے چارٹر پر یقین رکھتی ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1514 جو ہر قوم کو آزادی اور خودارادیت کا حق دیتی ہے، وہ سکھ قوم پر کیوں لاگو نہیں ہوتی؟

خالصتان کا مطالبہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک تاریخی ضرورت ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں سکھ آزادانہ اپنی مذہبی، ثقافتی، لسانی اور سماجی زندگی گزار سکیں، بغیر کسی ریاستی مداخلت کے۔ جہاں انکی عبادت گاہیں محفوظ ہوں، انکے فنکار آزاد ہوں، انکے نوجوان منشیات سے محفوظ ہوں اور انکے رہنما خوف کے بغیر بات کر سکیں۔

دنیا کو اس حقیقت کو ماننا ہو گا کہ سکھ قوم ایک ممتاز شناخت رکھتی ہے، جو نہ صرف بھارت کے اندر، بلکہ پوری دنیا میں اپنی خدمت، قربانی، اور اصولوں کیلئے جانی جاتی ہے۔ ان کی اس شناخت کو دبانا، انکار کرنا، یا ختم کرنا، عالمی ضمیر کی شکست ہے۔

تازہ ترین