حروف تہجی کے ہر ہر لفظ کی اپنی اپنی اہمیت اور معنویت ہے، الف کی تو پوری کائنات پر چھتر چھایا ہے’’ اکو الف تیرے درکار‘‘۔ تضادستان میں مگر اس وقت ع بمقابلہ ع ہے ،اِدھر بھی ع اور اُدھر بھی ع ۔ بلکہ یک نہ شد، دو دو شد۔ لکیر کے آمنے سامنے دونوں طرف ایک ع نہیں بلکہ دو دو ع ہیں ۔اگر ریاست کی طاقت (جنرل) عاصم منیر اور اداروں کی گرفت (جنرل) عاصم ملک کے پاس ہے تو اپوزیشن کی ڈور جیل کے اندر بیٹھے عمران خان اور جیل سے باہر گرجتی علیمہ خان کے پاس ہے۔ گویا عین میدان میں ع لڑائی ہے جسکے چاروں ع مرکزی کردار ہیں اور انہی کی آویزش سے اگلا مرحلہ سجے گا جو ع جیتے گی وہی ع یہاں حکومت کرے گی اور اسی ع کا ڈنکا بجے گا۔
چند سال پہلے کی بات ہے جب ب بشریٰ عمران کا روحانی جادو چل رہا تھا مقتدرہ کے اس وقت کے جرنیل بھی اپنے ارد گرد روحانی ہالہ بناکر بنی گالہ جایا کرتے تھے کہ کہیں روحانی تیرکا شکار نہ ہوجائیں۔ اس زمانے میں جب روحانی موضوع پرلکھنا خلاف قانون و مذہب ٹھہرتا تھا اس ڈر پوک لکھاری نے بشریٰ عمران کی طرف سے لفظ ع پرخصوصی عنایت پر کالم باندھا تھا کیونکہ اس زمانے میں پورے پنجاب میں ڈُھنڈ یا پڑی تھی کہ ع سے شروع ہونے والے نام کا واحد رکن صوبائی اسمبلی کون ہے ؟ وہ عثمان بزدار نکلے اور یوں وزارتِ اعلیٰ کا قرعہ انہی کے نام نکلا پھر سندھ کے گورنر بھی ع والے عمران اسماعیل بنے تھے یہ ہر گز حسنِ اتفاق نہیں تھا کہ ع کے لفظ سےشروع ہونے والے عارف علوی کو صدارت ملی تھی۔ مگر پھرکیا ہوا کہ وقت بدل گیا ع والا عون چوہدری نا پسندیدہ قرار پایا ، ق والا جنرل باجوہ راندہ درگاہ ہوا اور آخر میں ع غ کی کوئی تمیز نہ رہی ،نہ روحانیت اور علم الاعداد کافسوں چلا نہ چھو منتر کام آیا اور نہ ہی عقل سمجھ مفید ثابت ہوئی ۔ نہ پہلے تصویریں دیکھ کر درست انتخاب کرنے کا طریقہ چلا اور نہ جرنیلوں سے معاملہ طے کرنا کا سلیقہ چلا ،ع والے جنرل عاصم منیر چیف آف آرمی اسٹاف بنے تو ع والے عمران اور ب والی بشریٰ بی بی کا سیاسی بستر گول ہونا شروع ہوگیا اورابھی تک یہ بستر بندہی ہے کھل نہیں سکا ۔ اور ابھی اس کے کھلنے کا امکان بھی نظر نہیں آرہا۔
یاد کریں وہ وقت جب ب بشریٰ اپنے خاوند کی سیاست کو بھی کنٹرول کرتی تھیں تب ع علیمہ کو ہر وقت پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔عمران خان کے دور ِحکومت میں جب ب بشریٰ اور ف فرح کا طوطی بولتا تھا افسروں کی تقرری کیلئے مٹھی گرم کرنا پڑتی تھی اس زمانے میں ع علیمہ خان ، ع عظمیٰ خان اور ن نورین نیازی کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا تھا۔ عمران جیل گیا ہے اور بشریٰ بی بی اسلام آباد دھرنے کے بعد مایوسی اور چپ کا جاپ کرتےکرتے جیل پہنچ گئی ہیں تو ع علیمہ خان کو ع عروج مل گیا ہے، اس وقت تحریک انصاف کی مرکزی شخصیت وہی ہیں نہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کی کوئی اہمیت ہے اور نہ وزیراعلیٰ گنڈا پور کی۔ حکم چلتا ہے تو بس ع علیمہ خان کا۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور باہر سے تحریک انصاف کی مالی امداد کرنے والے علیمہ خان سے ہی ہدایات لیتے ہیں۔ اس ڈرپوک لکھاری نے توبہت پہلے لکھ دیا تھا کہ بشریٰ بی بی کی قیادت چل نہیں سکی اور اب ان کی جگہ عمران خان کی ہو بہو زنانہ نقل علیمہ خان زمامِ کار سنبھال چکی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سب ڈوریاں کپتان اپنے ہاتھ میں ہی رکھے گا، علیمہ خان کی ڈوری بھی جب چاہے گا بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کی طرح کھینچ کر انہیں صفر کردے گا ،کپتان کسی کو فری ہینڈ نہیں دیتا۔ علیمہ خان کو البتہ کپتان بھائی کی نفسیات پر سب سے زیادہ عبور حاصل ہے وہ بھائی کی پیار بھری ڈانٹ ڈپٹ بھی سن لیتی ہیں، خاندان میں وہ واحد ہیں جو شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی پراجیکٹس میں نمایاں طورپر شریک رہیں ۔ لکیر کی دوسری جانب کی ع اس وقت ریاست کی سب سے طاقتور شخصیت بن گئی ہے پاک بھارت جنگ میں برتری کے بعد امریکی صدر ٹرمپ سے لنچ ملاقات نے ان کی پوزیشن کو مضبوط کردیا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مضبوطی اور مقبولیت کا دوسرا مطلب دوسری ع یعنی عمران کی کمزوری اورقبولیت نہ ہونے کے تاثر کو بڑھا رہی ہے ع کی اس لڑائی میں علیمہ خان کی ع نےصلح جوئی کی بجائے محاذ آرائی کا عندیہ دیا ہے صرف ایک بیان’’کچھ لو اور دو‘‘ کا تھاوگرنہ ہر بیان جیل کے دروازے توڑنے اور ریاستی قوانین کو پامال کرنے کا ہوتا ہے۔
دو ع کی لڑائی میں ن سب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے حکومت ملنے کے بعد وہ فوج کی زبانی حمایت میں تو آگے آگے ہے مگر سیاست کے عملی میدان میں کوئی چال چلنے کو تیار نہیں ۔نون کی سیاسی بے عملی کی سب سے بڑی اور واضح مثال تحریک انصاف کے اندر اختلافات سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکنا ہے۔ جنگ کے بعد کی صورتحال میں جو نفسیاتی تبدیلی آچکی ہے اس کو سیاسی تبدیلی میں بدلنے کیلئے جو اقدامات کرنے چاہئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کے اندر اختلافات اور پھر بالخصوص پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں کسی فارورڈ بلاک کو نہ بنا پانا ،سیاسی غفلت کی نشانی ہے۔ کسی بھی ضلع میں ابھی تک کوئی سیاسی کنونشن ، نئی شمولیتیں نہیں ہوئیں ،جنگ کے بعد کی صورتحال پر جشن تک منانے کی سیاسی ترغیب نہیں دی گئی ایسا لگتا ہے کہ نون سکتے کی حالت میں ہے۔
ع لڑائی میں جنرل عاصم منیر کی ع اس وقت لیڈ لے چکی ہے انہیں کوئی بڑا خطرہ در پیش نہیں لیکن ان کیلئے کچھ چ چیلنجزایسے ہیں جن کو حل کئے بغیر وہ چین سے سو نہیں سکتے ۔پہلا چیلنج اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنا ہے، حالیہ بجٹ کے اعداد و شمار نے وہ امید نہیں دکھائی جو مجموعی صورتحال میں نظرآرہی ہے۔ دوسرا چ چیلنج سیاسی عدم استحکام سے نمٹنا ہے جب تک ع عمران خان موجودہ اسٹیٹس میںہیں ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئے گی اورجب تک ان کی سیاسی حمایت کم کرنے کےعملی اقدامات نہیں ہوتے عمران خان کا سیاسی چ چیلنج برقرار رہے گا۔ جنگ اور دورہ امریکہ کے بعد ایک نیا چ چیلنج مسلم لیگ نون کے تن مردہ میںجان ڈالنے کی ترغیب ہے اس میں نواز شریف ، شہباز شریف نے لیڈ نہ لی تو ڈرپوک کو لگتا ہے کہ جنرل عاصم منیر کے ش شدید ،ح حامیوں کا ایک گروپ ایک نئے بیانیے کے ساتھ تحریک انصاف کے مخالف بیانیے کے خلاف سرگرم عمل ہوسکتا ہے۔ پہلی ع لڑائی ہے اور دوسری ن لڑائی، دیکھئے ہوتا کیا ہے؟؟