• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان معاشی بحران کے جس انتہائی مشکل وقت سے گزر کر اقتصادی بحالی اور استحکام کے پُرامید دورمیں داخل ہو رہا ہے اس میں موجودہ حکومت کی نتیجہ خیز پالیسیوں، آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کے قرضوں اور دوست ملکوں کی عملی اعانت کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس سے نہ صرف ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا بلکہ تعمیر و ترقی کے منصوبے آگے بڑھانے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے بھی قابل ہوگیا۔ اس حوالے سے چین اور دوست اسلامی ممالک کی اعانت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ چین نے نہ صرف اربوں ڈالر کے قرض دیئے بلکہ ان کی شرائط بھی اتنی مشکل نہیں رکھیں کہ پاکستان پرناقابل برداشت بوجھ پڑے۔ اس ضمن میں تازہ ترین اقدام یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے 3.4 ارب ڈالر کے قرضوں کی وصولی موخر کردی ہے جو دیگر حالیہ کمرشل اور کثیر جہتی قرضوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے زرمبادلہ کےذخائر کو 14ارب ڈالرتک بڑھا دیں گے۔ اس سے آئی ایم ایف کی ایک بڑی شرط پوری ہو جائے گی۔عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان سے30جون کو موجودہ مالی سال کے اختتام پر 14 بلین ڈالر سے زیادہ ذخائر کا مطالبہ کیا تھا جو چین کی مدد سے پور اہوگیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چین نے 2.1ارب ڈالر پہ قرضوں کی مدت میں توسیع کی ہے جو گزشتہ تین سال سے پاکستان کے مرکزی بینک کے ذخائر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے 3ارب ڈالر

کے تجارتی قرض کی دوبارہ مالی امداد دی ہے جوپاکستان نےدو ماہ قبل واپس کردیئے تھے۔ یہ ری فنانسنگ پاکستان کو مشکلات کم کرنے میں مدد دے گی ۔ ذرائع کے مطابق مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے مزید ایک بلین ڈالر اور کثیر الملکی مالیتی ادارہ سے 50کروڑ ڈالر بھی موصول ہونے والے ہیں اس سے ہمارےذخائر آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق ہو جائیں گے۔ بیرونی ذرائع سے ملنے والے یہ قرضے، خاص طور پر چینی رقوم پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے بہت اہم ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت7بلین ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کے تحت جاری اصلاحات کے ذریعے مستحکم ہوگئی ہے ، مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے مزید ایک ارب ڈالر اور کثیر ملکی مالیاتی اداروں سے 50کروڑ ڈالر کا حصول زرمبادلہ کےذخائر بڑھانے میں مدد دے گا۔ آئی ایم ایف کے قرضے ملکی حیثیت کی بحالی میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں جبکہ چین سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دوسرے دوست ملکوں کے قرضوں نے گرتی ہوئی معیشت کی کایا پلٹ دی ہے۔ قرضے لینا عام طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر ایسے قرضے جن سے کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں مدد ملے اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لایا جائے جدید معاشی نظام کی ترجیح ہے۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے اور دنیا کا امیر ترین ملک بھی اسی کو سمجھا جاتا ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے قرضوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اندرونی وسائل کا ضیاع روکنا بھی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ اس معاملے میں ٹیکس چوری روکنے کے لئے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بجلی اور گیس کی چوری روکنا بھی ضروری ہے وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ 5سو ارب روپے کی صرف بجلی اس وقت چوری ہو رہی ہے متعلقہ محکمے کے حکام کے لئے لمحہ فکریہ ہے، ترقیاتی اسکیموں کے اخراجات میں گھپلے روزمرہ کی شکایات ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں کھربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف ہواہے۔ ملکی معیشت کی مکمل بحالی کے لئے ضروری ہے کہ مالی بے قاعدگی پہ قابو پایاجائے۔

تازہ ترین