• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ ایران اسرائیل جنگ کے اثرات سے مدتوں واسطہ پڑتا رہے گا ۔ کچھ روز قبل اسلام آباد جانا ہوا تو ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے ملاقات کی ۔ ایران کی جانب سے اپنے کامیاب دفاع پر ایرانی سفیر کو مبارک باد پیش کی ۔ ایران کو اس جارحیت سے جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ یہ تھا کہ ایران میں نظم حکومت طاقت کے زور پر ختم کر دیا جائے گا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ليبيا سے لے کر عراق شام تک ایسے’’ تجربات‘‘نے کوئی پائیدار نظام حکومت دینے کی بجائے صرف زمین کو لہو رنگ ہی کیا اور اگر اسرائیل ایران میں بھی حکومت کو طاقت کے زور پر تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو ایران کے حالات بھی سوائے تباہی کے اور کسی سانچے میں نہ ڈھلتے اور ہمسایہ ملک ہونے کے سبب پاکستان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا جیسے کہ ہم آج تک افغانستان کے حالات کے اثرات سے اپنی جان نہیں چھڑا سکے ہیں۔ اس ایران اسرائیل جنگ کے اثرات فوری طور پر ایران کی خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ میری تہران میں ایرانیوں سے بات ہوئی تو وہ اس بات پر بہت کبیدہ خاطر ہیں کہ انڈیا نے نہ صرف یہ کہ آئی اے ای اے میں ایران کی مخالفت کی ، ایس سی او کے اعلامیہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ مودی نے اس دوران نيتن یاہو سے بھی گفتگو کی اور انڈیا ایران کے حق میں تو کیا کوئی بیان جاری کرتا وہ تو توازن بھی برقرار نہ رکھ سکا ۔ اور اسی وجہ سے جب پاکستان کی بات ہوئی تو ایران کی پارلیمنٹ میں تشکر پاکستان کے نعرے لگائے گئے ، ایران نے صدر ، وزیر اعظم ، نائب وزیر اعظم ، وزیر دفاع، چیف آف آرمی اسٹاف ، وزارت خارجہ و دفاع و میڈیا کا پاکستان میں شکریہ ادا کیا جبکہ انڈیا میں جاری بیان میں انڈیا کے کسی ریاستی عہدے دار یا ادارے کا کوئی ذکر نہیں کیا شکریہ تو دور کی بات ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ انڈیا میں جن مسلمانوں نے ایران کی حمایت کی ،ان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ۔ ان دونوں رویوں سے اس بات کا برملا اظہار ہوتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات اور علاقائی صورتحال کو سمجھنے کے حوالے سے بھی ایران میں ایک نیا نقطہ نظر دیکھنے کو ملے گا ۔ پاکستان کو اس حوالے سے مکمل طور پر تیاری کرنی چاہئے کہ ایران اسرائیل جنگ کے جو اثرات خطے پر پڑیں گے ان پر انڈیا کس نوعیت کی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آتا ہے اور پاکستان کہاں کہاں پر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر انڈونیشیا بڑا مسلمان ملک ہے ، اس کے وزیر دفاع کا عنقریب دورہ پاکستان متوقع ہے ، ہماری باہمی تجارت سے لے کر انڈونیشیا نے ہمیں پام آئل کا سارا سسٹم لگا کر دیا تھا جو ہم کامیابی سے چلا نہ سکے ، اب ایسے ممالک سے پاکستان کو عسکری ، تزویراتی تعلقات کو بھی بڑھانا چاہئے اور اپنا دفاع مزید مضبوط کرنا چاہئے کیوں کہ پاکستان انڈیا حالیہ تصادم کی وجہ سے اس بات کی بہت توقع کی جا رہی ہے کہ انڈیا اپنی ہزیمت کی خفت مٹانے اور مودی داخلی سطح پر اپنی گرتی سیاست کو استحکام یا سہارا دینے کی غرض سے دوبارہ کوئی بیوقوفی کر سکتے ہیں۔ حالیہ پاکستان انڈیا تصادم کے بعد کچھ انڈینز سے بھی ملاقات ہوئی ، ملاقاتیں تو دنیا بھر کے سفارت کاروں ، دانشوروں سے ہوتی رہتی ہیں اور اس میں انڈینز سے استثنیٰ نہیں ۔ مگر اس ملاقات کا تذکرہ اسلئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ سمجھا جائے کہ انڈین حکومت کی اس جارحیت اور پھر اس جارحیت کا جو انجام ہوا اسکے بعد وہاں پر معاملات کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ بات تو پتھر پر لکیر ہے کہ انڈیا پاکستان کی جانب سے اتنے بھرپور جواب کی قطعی طور پر توقع نہیں کر رہا تھا اور جو کچھ بھی ہوا وہ اس کی توقعات کے بالکل برعکس تھا ۔ میں نے ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئےانڈینز سے کہا کہ آپ اس خوش فہمی سے باہر نکل آئیں کہ کشمیر کو چھوڑ کر امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک بر صغیر کے عوام ایک دوسرے کی بندوقوںکے خوف میں ہی زندگی بسر کریں گے ۔ دو معاملات جب تک انڈیا کے فیصلہ سازوں کے ذہن سے نہیں ختم ہوتے اس وقت تک امن کی خواہش عبث ہے اور وہ امور یہ ہیں کہ انڈیا فوری طور پر خطے میں تھانیدار بننے کا فتور ذہن سے نکال دے اور دوسرا یہ کہ ہند پر بر سر اقتدار مسلمان بادشاہوں سے دشمنی کا آج بدلہ لینے کی جانب نہ بڑھے اور جب تک انڈیا ان دو فتوروں سے نہیں نکلے گا ، کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہنے دے گا تو امن بھی قائم نہیں ہوگا۔

تازہ ترین