انسانی تاریخ واقعات اور سانحات سے بھری ہوئی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ یادوں سے محو ہوتے چلے گئے لیکن حضرت امام حسینؓ کی اپنے خاندان کے ہمراہ شہادت ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جو صدیاں بیت جانے کے باوجود بھلایا نہیں جاسکا، میں نےیہ ابتدائیہ آج سے آٹھ سال قبل اپنے ہفتہ وار کالم بعنوان حضرت امام حسین کی یاد میں ...!بتاریخ 28ستمبر2017ء کیلئے تحریر کیا تھا۔آج ہر سال کی طرح ایک مرتبہ پھر محرم الحرام کا مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے اور مجھے اپنے چاروں طرف سلام یا حسینؓ کی پکار سنائی دے رہی ہے۔ ہندو کمیونٹی کی حضرت امام حسینؓ سے وابستگی صرف روائتی طور پر مذہبی ہم آہنگی تک محدود نہیں بلکہ تاریخی، روحانی اور اخلاقی اقدار کی ترجمانی ہے،ہر اصول پسند ہندو کی نظر میں یزیدی فوج کے خلاف جنگ کو دھرم یُدھ کا درجہ حاصل ہے۔میں نے اپنے مذکورہ کالم میں مذہبی روایت بیان کی تھی کہ جب کربلا کے میدان میں معرکہ حق و باطل برپا ہوا تو موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے راہب دت نےاپنےسات بیٹےحضرت امام حسین ؓکی حفاظت میں قربان کردیے تھےجبکہ راہب دت کو زندہ گرفتار کرکے زبردستی ہندوستان واپس بھیج دیا گیااور یوں لاہور میں حضرت امام حسینؓ کے فلسفہ شہادت کی یاد میں ایک نیا مکتبہ فکر حسینی برہمن وجود میں آگیا، آج حسینی برہمنوں کی بڑی تعداد سندھ کے علاقے مِٹھی میں بستی ہے جبکہ راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش ، لکھنؤ، اجمیر شریف سمیت مختلف علاقوں میں موجود ہندو اپنا تعلق امام حسینؓ سے جوڑتے ہیں، انکا عقیدہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے انکے جدامجد راہب دت سے ملاقات کے دوران انہیں حسینی برہمن کا نام عطا کیاتھا۔ حضرت امام حسینؓ سے ایک بیان منسوب ہے کہ انہوں نے کربلا کے میدان میں یزید کو امن کی پیشکش کی تھی کہ اگر تمہیں یا تمہاری حکومت کو مجھ سے خطرہ ہے تو میرے لئے راستہ چھوڑ دو تاکہ میں ہندوستان چلاجاؤں۔سانحہ کربلا کے وقت مسلمان دو گروہوں میں بٹ چکے تھے، ایک طرف ظالم حکمران یزید اور اسکے سپورٹرز جو امام عالی مقام کے خون کے پیاسے تھے تو دوسری طرف کُوفہ کے بے وفا باسی جنکے دل حضرت امام حسین اور تلواریں یزید کے ساتھ تھیں، ایسے نازک موقع پرجب حضرت امام حسین نے پُکارا کہ ہے کوئی جو میری مدد کو آئے؟ انکی اس پُکار کا جواب اگرکسی نے دیا تو وہ سرزمین پاک و ہند میں بسنے والے تھے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ اپنے زمانے کی سپرپاور سلطنت فارس کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد کی دو بیٹیاں تھیں، شہزادی شہر بانو کا عقد حضرت امام حسین سے ہوا تھا اور انکے بطن سے حضرت امام حسین کے بیٹے علی ابن حسین نے جنم لیا جبکہ دوسری شہزادی مہر بانو کی شادی ہندوستانی راجا سمدر گپت سے ہوئی اوراسکا نیا نام چندر لیکھا رکھا گیا ۔ سانحہ کربلا کے موقع پر جناب علی ابن حسین نے ایک خط اپنے خالہ زاد کزن سمدرگپت کو ارسال کیاتھا جواس وقت ہندوستان کے راج سنگھاسن پر براجمان تھا،راجانے سندیسہ ملتے ہی اپنے خالُو حضرت امام حسین کو ہندوستان آنے کی مخلصانہ دعوت دے ڈالی اورپھر جواب موصول نہ ہونے پر جنگجو سورماؤں کا ایک دستہ کربلا کی جانب روانہ کردیا، عرب کے صحراؤں کی تپتی ریت کو چیرتےہوئے جب ہندوستانی جنگجووہاں پہنچے توبدقسمتی سے سانحہ کربلا برپا ہوچکا تھا، شدتِ غم سے نڈھال سپاہیوں نے یزیدی لشکر پر یلغار کردی، ان میں سے کچھ کٹ مرے، کچھ گرفتار کرلئے گئے، کچھ روتے پیٹتےماتم کرتے واپس آگئے اور کچھ حضرت امام حسین کی عقیدت میں کربلا کی سرزمین میں ہی بس گئے۔حضرت امام حسین کی مدد کیلئےراجا سمدرگپت کے بھیجے سپاہیوں نے عرب کےجس مقام پر پڑاؤ ڈالاتھا ، وہ جگہ آج بھی دیارِ ہند کے نام سے جانی جاتی ہے۔ہندو کمیونٹی کی حضرت امام حسین سے رشتہ داری کی یہ دیومالائی داستان پاک و ہند کی عوامی روایتوں، شاعری، مرثیوں، اور صوفی روایتوں کا اہم حصہ ہے، جو خلوص، روحانیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی عکاس ہے۔ امام عالی مقام نے ظلم، جبر اور آمریت کے خلاف جو اصولی موقف اختیار کیا، وہ ہندوستان میں بسنے والوں کے دِل میں ہمیشہ کیلئے گھر کرگیا، انگریز سامراج کی برصغیرآمد تک مختلف نوابی ریاستوں اور ہندو راجواڑوں میں محرم سرکاری سطح پرعقیدت و احترام سے منایا جاتا تھا،پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں ایسی بے شمار تاریخی امام بارگاہیں موجود ہیں جنہیں ہندو راجاؤں یا زمینداروں نے تعمیر کرواکے حضرت امام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا،تحریک آزادی کے نمایاں کردار مہاتما گاندھی جی کا کہنا تھا کہ وہ امام حسینؓ کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے غاصب انگریز سرکار کو ہندوستان سے بے دخل کردیں گے ۔آج بھی ہر سال دس محرم کو کئی ہندو خاندانوں کے گھروں میں امام حسینؑ کی یاد میں چراغ جلتے ہیں ،پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، ماتمی جلوسوں میں عَلم اُٹھائے جاتے ہیں ، ہندو خواتین اپنے بچوں کی سلامتی اورعمر درازی کیلئے انہیں تعزیے کے نیچے سے گزارتی ہیں اور مقصدِ زندگی میں کامیابی کیلئے تعزیہ اٹھانے کی منت مانگی جاتی ہے۔ اردو ادب کے ہندو شعراء رام راؤ ، مکھی داس،منشی چھنولال دلگیر،راجہ بلوان سنگھ، دیاکشن ریحان، راجہ الفت رائے،کنوردھنپت رائے ،کھنولال زار ،دلورام کوثری، نانک لکھنوی، منی لال جوان، روپ کماری، باواکرشن مغموم، کنورمہندرسنگھ بیدی سحر،کرشن بہاری، ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ، ماتھرلکھنوی، بانگیش تیواری، گلزاردہلوی، بھون امروہوی وغیرہ کے کلام میں ہندوکمیونٹی کی عقیدت بھرپور انداز میں نظر آتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ حضرت امام حسین کی لازوال قربانی انسانی شعور کی بیداری ہے، جسے ہر مذہب، ہر نسل اور ہردردمند دل محسوس کرتا ہے، انکی قربانی صرف ایک مخصوص مسلک یا مذہب کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانیت کیلئے ایک عظیم مثال ہے۔ ہندو کمیونٹی کا حضرت امام حسین سے جذباتی تعلق اس آہنی عزم کا اعادہ ہے کہ جہاں بھی حق و سچ کی بات ہو، وہاں حسین کا نام گونجے گا،نہ دیکھو وہ ہندو ہے یا مسلمان ،اگر وہ ظالم کے خلاف مظلوم کے ساتھ ہے تو وہ حسینی ہے۔سلام یا حسین!