• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیر کی کچھار الگ ہے اور چیتے کی شکار گاہ الگ۔ دونوں کی ملاقات یا آمنا سامنا کم ہی ہوتا ہے۔ شیر بوڑھا ہو گیا ہے اور جنگل کیلئے بہت کچھ کرنے کے باوجودوہ تاریخ میں جتنا بڑا نام پیدا کرنا چاہتا تھاوہ جنگل کی اندرونی سیاست کی وجہ سے نہیں کر سکا۔وہ ہند اور سندھ کے جنگلوں میں امن قائم کرکے تاریخ بنانا چاہتا تھا، جنرل مشرف اور جنرل راحیل شریف آڑے آگئے۔ پپلیے ہاتھی کے ساتھ معاہدہ کرکے وہ میثاق جمہوریت کے ذریعے جمہوری نظام کو مضبوط تر کرنا چاہتا تھا ۔تب جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے چیتے کو میدان میں اتارا تاکہ شیر اور ہاتھی کے معاہدے کو چیلنج کرکے انہیں فارغ کر دے۔ اگرچہ بوڑھے شیر کے خاندان کو اقتدار تو ملا ہوا ہے مگر اپنے خواب پورے نہ ہوپانےکی اُسے کسک تو ضرور ہوگی۔ اب وہ جنگل کی روزمرہ سیاست سے الگ تھلگ خاندانی معاملات اور وراثتی ملکیت کو سنبھالنے اور اگلی نسل کے حوالے کرنے میں مصروف ہے مگر پھر بھی اس کے چہرے پر صاف لکھا نظر آتا ہے کہ اسکے خواب ادھورے رہ چکے ہیں۔ شیر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کسی سے ناراض ہو جائے تو آسانی سے دل میں ڈالی گرہ کھولتا نہیں،وہ بہت گہرا ہے اسکے دل اور دماغ کو ٹٹولنا مشکل ترین کام ہے مگر چونکہ وہ بہت تجربہ کار ہے اس لئے اسے علم ہے کہ اسکے خاندان کو ہائبرڈ نظام میں جو حصّہ ملا ہےوہ ناپائیدار ہے، جنگل کے عوام سے ووٹ لئے گئے تو شیر گروپ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ ابتداء میں اسے خیال ہوگا کہ ترقیاتی کاموں اور کامیاب معیشت سے عوامی دھارا بدل جائے گا ،جنگل کے جانور اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں گے مگر ایسا ہو نہیں رہا کہ چیتے کے ہمنوا جھوٹ اور سچ کو ملاکر ایسا بیانیہ بنائے ہوئے ہیں کہ نفرت اور غصے میں شیر کے خاندان کیلئےان میں کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ تو اپنے ہر حامی اور لیڈر کو بھی شک کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ ایسے میں بوڑھا شیر ایسا کیاکرے کہ تاریخ میں نام پیدا کرلے، ملک سے سیاسی نفرت ختم کر دے ،مصالحت کی داغ بیل ڈال دے؟ اسکے ذہن کے کسی گوشے میں یا پھر کسی گستاخ صحافی کے ذریعے مسئلہ اور اس کا حل تو آتا ہوگا، دوسری طرف اسے چیتے کی زیادتیاں اور لگائے گئے زخم بھی یاد آتے ہوں گےکہ کس طرح اس وقت کی عدلیہ اور مقتدرہ کی سازباز سے چیتے نے پہلے شیر کے دامن کو داغدار کیا پھر دامن سرے سے ہی پھاڑ دیا اور اس پر بھی اکتفا نہ کیا۔ اس کے حامیوں نے لندن تک اس کا پیچھا کیا اور اس کے گھر کے باہر مورچہ لگا کر اس کے سینے پر تیر مارتے رہے؟ چیتے کی زیادتیوں کو فراموش کرنا اور دوسری طرف مصالحت کا راستہ اپناناآسان نہیں۔

چیتا، شیر کا پرانا واقف ہے کرکٹ کے دِنوں سے شیر اور چیتے کا رابطہ تھا۔ چیتا، جنرل ضیاء الحق کا لاڈلا کرکٹر تھا اور شیر اس کا لاڈلا سیاستدان، بینظیر بھٹو کا مخالف ہونا بھی دونوں میں قدرِ مشترک تھی۔ شوکت خانم اسپتال کا پلاٹ دینے تک دونوں میں گاڑھی چھنتی رہی مگر پھر دائیں بازو کی مقتدرہ نے چیتے میں اتنی ہوا بھردی کہ اسے شیر، بکری لگنا شروع ہو گیا اور پھر جنرل پاشا کے دور میں تو چیتے نے شیر کو بکری کی طرح تر نوا لہ بنا کر سرعام مخالفت شروع کردی۔ چیتا اسٹیج پر شیر کو برا بھلا کہتا رہا مگر 2013ءکا الیکشن پھر سے شیر جیت گیا اور چیتا بنی گالہ کے جنگل میں بن باس لیکر بیٹھ گیا۔ ایسے میں شیر، چیتے کے پاس جاپہنچا۔ چیتے میں سو خرابیاں ہوں گی مگر جب شیر، لومڑی یا جنگل کا کوئی بھی جانور اس کے سامنے چلا جائے تو وہ اس سے بدتمیزی نہیں کرتا۔ پشت پیچھے چاہے ہر ایک کو گالی دے مگر ملاقات میں وہ چاہے خاموش رہے ادب کا دائرہ کبھی پار نہیں کرتا۔چکری کے مشترکہ دوست نے چیتے اور شیر کی خوشگوار ملاقات تو کروا دی مگر اس کے دیرپا خوشگوار اثرات مرتب نہ ہو سکے اور کچھ ہی دنوں بعد سے پھر وہی الزام تراشی، دشنام بازی اور احتجاج شروع ہوگئے۔

فرض کریں شیر ، اسیر چیتے کو ملنے بھی چلا جاتا ہے تو کیا ہوگا، تخت ایک ہے اور اس کے دعویدار دو؟ ایک طرف شیر کا بھائی چھوٹا شیر اور دوسری طرف چیتا خود۔ بڑا شیر، چھوٹے شیر کو ہٹا کر چیتے کو تخت تو دے نہیںسکتا؟ چیتا خواہش مند ہے کہ وہ صرف نظام کے ببّر شیر سے مذاکرات اور ڈیل کرے جبکہ ببّر شير فی الحال اس پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ فرض کریں شیر بادلِ نخواستہ جیل میں بیٹھے چیتے کا دروازہ کھٹکھٹا بھی دے تو مذاکرات کیا ہوں گے؟ کیا چیتا، چھوٹے شیر اور شیرنی کے اقتدار جاری رکھنے پر رضامند ہو جائے گا؟ میرے خیال میں نہیں۔ فرض کریں شیر فرشتوں جیسی سوچ رکھتے ہوئے کہہ دے آؤ چیتےاب آپ جنگل کاانتظام سنبھالو، ہماراشیر خاندان بن باس لے لیتا ہے اب چیتا سب کچھ سنبھالے ، عقل اس پیشکش کو بھی ناممکن سمجھتی ہے۔ تیسری ممکنہ خواہش اور کوشش مل جل کرحکومت کرنے کی پیشکش ہوسکتی ہے فی الحال نہ چیتا اس آفر کو مانے گا اور نہ شیر یہ آفر کرے گا کیونکہ یہ شرط فی الحال ببّر شیر کیلئے قابل قبول نہیں۔ شیر اور چیتا مل بھی جائیں ،مفاہمت کر بھی لیں تب بھی ببّر شیرکو ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔

ممکنہ عقلی راستہ صرف ایک ہے جس سے جنگل میں سیاسی امن و مفاہمت کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے مگروہ راستہ ا بھی نہیں کھلے گا ،یہ اس وقت کھلے گا جب چیتے کی جماعت سیاسی جنگ میں ہار کر تھک جائیگی منگولوں سے ہارے ہوئے بغداد کے بادشاہ اور شکست خوردہ مغل بادشاہ سے نادر شاہ اپنی مرضی کا فیصلہ کروالے گا، اس وقت یہ کام بہت آسان ہوگا ۔نونی شیروں،پپلیے ہاتھیوں اور انصافی چیتوں کی ایک قومی حکومت بنانا ممکن ہے یہ قومی حکومت دو سال بعد منصفانہ انتخابات کروائے اور دوسری طرف اس کے استحکام کا راز مقتدرہ کی مکمل سپورٹ ہو۔ جواباً تینوں سیاسی جماعتیں مقتدرہ کے ببر شیر کو متفقہ طور پر تسلیم کرلیں اور انعام کے طور پر ببر شیر اس قومی حکومت کے ذریعے سیاست کو الیکشن کی طرف جانے کا موقع دیدے۔ اگر یہ واحد مفاہمتی راستہ نہیں نکلتا تو نہ شیر جیل جائے گا، نہ چیتے سے ملاقات ہوگی، نہ مفاہمت کا در کھلے گا اور نہ ساکن سیاست متحرک ہو سکے گی۔ قیافے فرضی کہانیاں اور مستقبل کے تانے بانے سنائے جاتے رہیں گے مگر جب تک مصالحت کے ذریعے قومی حکومت نہیں بنتی جمہوری مستقبل پر تالا لگا رہے گا اور اسی تالے کی تال میل سے اڈیالہ جیل کا تالا بھی بندہی رہے گا۔

تازہ ترین