• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتانی مرثیہ، عزاداری، سترہ سے زائد تعزئیے، آستان اور ذوالجناح کیساتھ زیارات اور خاص طور پر خواتین کی مجالس میں بہت سی تمثیلی رسوم ایسی ہیں کہ سانحہ کربلا کی یاد میں اشک بہانے والوں میں کوئی ایک فرقہ نہیں ،یہی عالم سبیل لگانے والوں نیاز،دینے یا تعزیہ اٹھانے والوں کا ہے (استاد، کا تعزیہ 80من کا اور شاگرد کا 125من کا ہے )۔ ملتان میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں شیعہ سنی خونیں تصادم میں سر کا خطاب پانیوالے ایک مخدوم کے کردار کے بارے میں ’’نقش ملتان‘‘ کے مصنف عتیق فکری کچھ باتیں کیا کرتے تھے جب میں ان سے کہتا ' علامہ صاحب ! اسے لکھ ڈالیں تو وہ معصومیت سے کہا کرتے تھے’’اوئے میں مرنے؟‘‘تب میں کہا تھا ' جناب! ہم سب نے مرنا ہے مگر جو معلومات رواداری کے اس،مرکز کے بارے میں آپکے پاس ہیں وہ لکھ ڈالیں تو اچھا ہے۔ اسی طرح بہت سے ذاکر ، خطیب آئےمحسن نقوی سمیت جس نے ہمارے ساتھ ملتان کے کالج سے ایم اے اردو کیا ۔ تب سابق مشرقی پاکستان سے ایک سے ایک شعلہ بیان مقرر ملتان آتا تھا مولانا بھاشانی، حسین شہید سہروردی ، جسٹس مرشد مگر مجھے مولوی فرید احمد کی سادگی مگر شعلہ بیانی نہیں بھولتی رات گئے باغ لانگے خان میں غریبانہ قسم کے جلسے میں وہ تقریر کر رہے تھے شایدسرکار کے کسی قاصد نے کوئی آوازہ کسا تو مولوی صاحب چمک کے بولے‘ میں حریت پسندوں اور انگریز دشمنوں کے علاقے سے آیا ہوں، میں تب بھی بول رہا تھا جب تمہارے ملتان کے مخدوم انگریزوں کے جوتے پالش کرکے تمغے اور جاگیریں لے رہے تھے‘ تب بھی میں یہ جانتا تھا کہ وہ دائیں بازو کی 'نظام اسلام پارٹی‘ کے سربراہ ہیں ۔یہ تو بعد میں ہوا کہ میں نے انکی ڈائری بہ زبان انگریزی’’ سورج بادلوں کے پیچھے‘‘ پڑھی۔ انہیں کسی دست شناس نے کہا تھا کہ آپ سے قدرت بہت بڑا کام لینے والی ہے، تب یہ بات طے تھی کہ پاکستان کی آئندہ قیادت مشرقی پاکستان سے آئیگی اسلئے مولوی فرید نے اسی خوش خیالی میں یہ ڈائری لکھی وہ مغربی پاکستان کے سبھی قائدین ( بھٹو ، اصغر خان کی نقل و حرکت اور انگریزی پریس کے کرنل زیڈ،اے سلہری اور بی ۔برکی کی لکھت ) پر نظر رکھے ہوئے تھے پر نہیں جانتے تھے کہ مکتی باہنی والے 16 دسمبر 1971 ءسے پہلے ہی انہیں ابلتےہوئے تیل کے کڑاہ میں ڈال دینگے۔ ممکن ہے موجودہ بنگلہ دیش میں مولوی فرید کی خطابت کا کوئی وارث ہو مگر میں صرف یہ بتا دوں کہ فضل القادر چودھری جیسے اور لوگ بھی تھے جو بھارت کی کھلی مداخلت سے سبھی کو نظر آنیوالے نوشتہ دیوار کو مٹانے کی کوشش کر رہے تھے بہت بڑے طوفان اور ہیجان کے مقابلے پر ۔کہنے کو تو خواجہ ناظم الدین بھی ملتان میں آئے تھے وہ کونسل مسلم لیگ کے سربراہ تھے انکے میزبان ملتان کے ایک مخدوم سجاد حسین قریشی تھے۔ یہ جلسہ موجودہ قلعے کے دمدمے کی سیڑھیوں کے پاس گراسی پلاٹ میں تھا وہاں شرکا بہت کم تھے۔ انکے آنے سے پہلے خواجہ ناظم الدین کے بارے میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا کہ آپ قائد ملت کے بعد آئے اور قائد قلت کہلائے وغیرہ ۔سٹیج کے سامنے کچھ لوگ چادروں میں حلقہ بنائے بیٹھے تھے جونہی کالی اچکن پہنے خواجہ ناظم الدین نے کہا ' برادران اسلام '! حلقہ زن افراد نے چادریں اتار کے پھینکیں اپنے سامنے کی ٹوکریوںسے گندے ٹماٹر اور انڈے نکال کے مارنے شروع کئے۔ تب انکے میزبان زربفت کی شیروانی میں ملبوس مخدوم سجاد قریشی انہیں سٹیج سے اتار کے اپنے مریدین کے ساتھ گاڑی تک لے گئے اور راہ فرار اختیار کی ۔ صبح کے اخبارات میں مخدوم صاحب کا کونسل مسلم لیگ سے مستعفی ہونے اور جنرل محمد ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ میں شمولیت کا بیان شائع ہوا ۔ بہر طور مولوی فرید احمد کی نظام اسلام پارٹی کے ایک ثابت قدم عہدے دار ملتان میں تھے وہ ایڈووکیٹ تھے جنکا ایک بیٹا صلاح الدین ایڈووکیٹ ہمارے ساتھ ایمرسن کالج ملتان میں پڑھتا تھا اسی کے چھوٹے بھائی بھی اسی درسگاہ میں پڑھتے رہے وہ پاکستان کی موجودہ آئینی عدالت کے سربراہ ہیں ممکن ہے ان سے اختلاف کرنیوالوں کو انکے فیصلوں میں مولوی فرید احمد کی 'ضدی آواز ' سنائی دیتی ہو۔

تازہ ترین