روبینہ قریشی
باجی مینا، میری کزن عینی کی کرائےدار تھیں۔ وہ ویسے تو امریکن نیشنل تھیں، لیکن شادی کے بعد حالات کچھ ایسے بنےکہ پاکستان آنا پڑا۔ اپنے شوہر اور دو بچّوں کے ساتھ عینی کے اوپر والے پورشن میں کرائے پر رہ رہی تھیں۔ مَیں اکثر اپنی کزن کے گھر جاتی، تو آتے جاتے اُن پر نگاہ پڑجاتی۔
اُنہیں اچھی خاصی اُردو بولنی آتی تھی۔ ایک دن نیچے آئیں، توعینی کچن میں دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ باتوں، باتوں میں بولیں۔ ’’یہ تم پاکستانی لوگوں کو اور کوئی کام نہیں؟‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘
مَیں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔ ’’صُبح اُٹھتے ساتھ ہی گھی والے پراٹھے، انڈے، دہی، چائے کے ساتھ تگڑا ناشتا کرکے پھر پوچھتے ہو کہ دوپہر میں کیا بنےگا اور اس بات پر ہر روزآدھا آدھا گھنٹہ بحث ہوتی ہے، پھر دوپہر کا کھانا پکنا شروع ہوتا ہے۔ تین بجے تک یہی ٹنٹا چلتا ہے اور اکثر شام میں بیگمات کہ رہی ہوتی ہیں، آج رات کا کھانا باہر جاکرنہ کھایا جائے؟لگتاہے،آپ لوگوں کا اوڑھنا بچھونا بس کھانا ہی ہے۔‘‘ ’’تو آپ لوگوں کا شیڈول کیا ہوتا ہے؟‘‘مَیں نے سوال کیا۔ ’’ہم صُبح اُٹھ کر کام پر جانے سے پہلے دودھ یا چائے لیتے ہیں۔
کام کے دوران برگر، فروٹ وغیرہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔ رات کا کھانا گھر پر بنتا ہے، مگر وہ بھی شام سے پہلے کھا کرفارغ ہو کے جلدی سوجاتے ہیں، کیوں کہ ہمیں اگلی صُبح بہت جلدی کام پر جانا ہوتا ہے۔‘‘ اُنھوں نے مختصراً اپنا معمول بتا دیا۔ بلاشبہ، یہ سچ ہےکہ ہمارے ہاں خاتونِ خانہ کا یہ ہر روز کا سوال ہے کہ ’’آج کیا پکے گا؟‘‘ اورگھروالوں کالگ بھگ روز کا جواب ہوتا ہے، ’’کچھ بھی پکالو۔‘‘ لیکن…جب کچھ بھی پکالیں، تو وہ عموماً خُود ہی کھانا پڑتا ہے۔
شادی کے پہلے سالوں میں، مَیں ہفتے کا چارٹ بنا کر کچن میں لگا دیتی تھی۔ سرتاج پوچھتے کہ آج کیاپکےگا؟ تو مَیں چارٹ کی طرف اشارہ کردیتی۔ اُس کے بعد دو ہفتوں کا چارٹ بنا کر لگانے لگی، پھر اِتنا تجربہ ہوگیا کہ چارٹ کے بغیر بھی کبھی یہ سوچنے پروقت ضائع نہیں کیا کہ آج کیا پکے گا۔
اب پچھلے چند سالوں سے مَیں بچّوں کے ساتھ مقیم ہوں تو وہ سارے کام، جو مَیں اکیلے کرتی تھی، تقسیم ہوگئے ہیں اور مجھ پر سے بوجھ کافی کم ہوگیا ہے، لیکن ذمّےداری بڑھ گئی ہے کہ اب افرادِ خانہ زیادہ ہیں، تو ہرصُبح ناشتے کے بعد دو سالن ملازمہ سے کہہ کرچڑھوا دیتی ہوں، لیکن اِن دونوں کی تیاری رات ہی کو کرلیتی ہوں۔
مثلاً کالے یا سفید چنے پکانے ہیں تو رات کو بھگودئیے۔ کوئی دال پکانی ہے، توصُبح فجرکےبعد بھگودی۔ ہمارے ہاں ماش کی دال چھلکے والی بنتی ہے۔ پالک، کریلے، بھنڈی وغیرہ آتے ساتھ ہی دھوکر صاف کرکے، پالک ابال کر، بھنڈی فرائی کرکے اور کریلوں کونمک لگا کر فریز کردیتی ہوں۔ ہاں، بھنڈی فریزر میں نہیں رکھتی۔ سالن کی ترتیب ایسے ہوتی ہے۔ گوشت (بکرے کا) آلو یا ٹنڈے، یا کدو یا اروی کے ساتھ شوربے والا سب سے پہلے چڑھا دیا۔
دوسرے سالن میں بھنڈی چکن، کریلے گوشت، یا دال مونگ، بغیر شوربے کی ہوگی۔ ساتھ چٹنی، سلاد وغیرہ۔ اگلے دن دوپہر کو بَھرتا، ساتھ تندور کی روٹی(گھر میں تندور ہے) یا دیسی گھی کے پراٹھے، جو سب کے نہایت پسندیدہ ہیں۔ رات کو شوربے والا مٹن کا سالن۔ اگلے دن کالے چنےدوپہرمیں اور رات کو کالے چنوں والے چاول، ساتھ کباب، رائتہ، چٹنی وغیرہ۔ اُس سے اگلے دن مسورکی تڑکے والی دال، پکوڑے، چٹنی، کھیرا، اُبلے ہوئے چاول اوراُبلےہوئے انڈے وغیرہ۔ دونوں ٹائم یہی چلتے ہیں۔
اگلے دن مٹن کے ساتھ کدو، آلو یا ٹنڈے۔ یعنی کوئی بھی موسم کی سبزی ڈال کرشوربے والا سالن، رات کو چکن پلاؤ یا یخنی پلاؤ، ساتھ مکس سلاد۔ اب چھٹا دن ہے، آج آلو، بڑیاں (دال کی بڑیاں) بنیں گی، جو سب کو پسند ہیں اور وہ دونوں ٹائم چلیں گی، اُن کے ساتھ چٹنی، سلاد وغیرہ اچھے لگتے ہیں۔
اور لیجیے، اب ویک اینڈ آگیا، ہو سکتا ہے، کھانا باہر جاکر کھائیں یا گھر پر کوفتے بنیں گے۔ رات میں چکن یا مچھلی کوئلوں پربھون کر۔ تو تقریباً ہر دوسرے ہفتےکا یہی روٹین ہے، لیکن ہر گھر کے اپنے معمولات اور وسائل ہوتےہیں، اِس لیے اِس میں بیف، مٹن اورمچھلی کو اپنےحساب سے شامل کرلیں۔
قصّہ مختصر، مَیں ہر روز رات کو پلاننگ کر لیتی ہوں کہ صُبح کیا پکنا ہے، اِس لیے مجھے تو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ کھانے میں سلاد لازماً شامل رکھتی ہوں، جس میں کھیرا، پیاز، ٹماٹر، لیموں اور موسم کے مطابق مولی، ککڑی یا گاجرہوتی ہے۔ نیز، چٹنی، رائتہ وغیرہ بنانے کی بھی پوری کوشش کرتی ہوں۔ گھی کم سےکم استعمال کرتی ہوں۔ میٹھا روزانہ نہیں بنتا، ہفتے میں تین سے چار دن کسٹرڈ، کھیر یا رس ملائی بن جاتی ہے۔
اِسی طرح سردیوں میں گُڑ والادیسی گھی کا حلوا، انڈوں کا حلوا وغیرہ بنتا ہے۔ ہاں، مہمانوں کی آمد یا بچّوں کی فرمائش پر کبھی کبھار ایک آدھ سالن یا اسنیکس کے آئٹمز تیار ہو جاتے ہیں۔ آخر میں، سوباتوں کی ایک بات کہ ’’آج کیا پکائیں؟‘‘ کے سوال پر ’’کچھ بھی پکا لو‘‘ کا جواب سُننے کے بعد جب ’’کچھ بھی پکے‘‘ ہوئے کو، کوئی منہ نہ لگائے، تو دل بُرا کرنے کی بجائے ’’کل کیا پکے گا؟‘‘ کا فیصلہ آج ہی کروا لیں۔ یقین مانیں، زندگی آسانی ہوجائے گی۔