انصار عبدالقہار
لفظ’’اشرافیہ‘‘کی مختلف تعریفیں، مختلف ماحول اور حالات کے تحت پیش کی گئی ہیں، جب کہ یہ لفظ پاکستان کے مخصوص سیاسی، سماجی و معاشی ماحول اور حالات کے تحت بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کے خیال میں ’’اشرافیہ‘‘ سے مُراد، پاکستان کا وہ مراعات یافتہ طبقہ ہے، جو قیامِ پاکستان سے قبل انگریز سرکار سے وفاداری کے نتیجے میں دولت مند یا جاگیردار بنا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد جمہوری یا فوجی آمرانہ حکومتوں کے ذریعہ بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت اور اقتدار کے تمام شعبوں سےمختلف سہولتیں اور مراعات حاصل کرتا ہے۔
عوام کے مطابق پاکستانی اشرافیہ میں اُمراء، سیاست دان، بیورو کریٹس، صنعت کاروں سمیت مذہبی اور فوجی شخصیات بھی شامل ہیں۔ مطلب، ہر وہ شخص جو ’’عام آدمی‘‘ نہیں، ’’عوام‘‘ میں شامل بھی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر’ ’خاص الخاص‘‘یا ’’اشرافیہ‘‘ ہے۔
واضح طور پر پاکستانی معاشرہ دو متضاد و متصادم حصّوں یا طبقوں میں تقسیم ہوچُکا ہے۔ ایک طبقہ عوام، جب کہ دوسرا طبقہ خواص یا اشرافیہ کہلاتا ہے۔ لفظ ’’عوام‘‘ کے معنی عامّہ کی جمع، عام آدمی، عام لوگ، رعایا یعنی خواص کے مقابل، جب کہ لفظ ’’خواص‘‘سے مُراد وہ لوگ، جنہیں علم و فضل یا اثر واقتدار کی بنیاد پرعام لوگوں یعنی عوام سے نمایاں امتیاز اور برتری حاصل ہو۔ عوام کے مدِمقابل خواص یعنی اشرافیہ، جو ہمیشہ حکومت اور اقتدار میں رہتے ہیں۔
پاکستان میں روزِ اوّل ہی سے حکومت یعنی انتظامیہ، مقنّنہ، عدلیہ او عسکریہ پر صاحبِ ثروت، مراعات یافتہ خاندانوں کا اثر و رسوخ اور قبضہ رہا ہے، ان خاندانوں میں خان، سردار، وڈیرے، جاگیردار، چوہدری، گدی نشین اور سرمایہ دار شامل ہیں، جن کو سیاست دان نہیں بلکہ سیاست پیشہ کہہ سکتے ہیں۔ یہی خواص ہیں اور یہی اشرافیہ۔ یعنی یہ عوام سے بالکل مختلف ہیں۔
راقم کی تحقیق کے مطابق، تاحال، پاکستان میں عوام یعنی غریب عوام کے لیے کوئی مخصوص لفظ اشرافیہ کے مقابل موجود یا مستعمل نہیں، جو ’’غریب عوام‘‘ کی اہمیت، حیثیت اور شناخت ثابت کرسکے، مزید برآں، حاصل معلومات کے مطابق، اردو اور عربی میں لفظ ’’شرف‘‘ سے شریف، شرفاء اور اشرافیہ کے علاوہ شرافت، شریفانہ، شرائف، شریفہ، اشرف، اشراف، اشرافیت، اشرفیت، تشرف، تشریف، تشریفات اور مشرف بھی مستعمل ہیں۔ اِسی طرح اُردو اور عربی زبان میں لفظ ’’غرب‘‘ سے غریب، غُرباء کے علاوہ غریبانہ، غریبی، غریبوں، غربت، غربتوں، غربتیں، غربی، غارب، غراب، غرابت، غرائب، غَربا، غربان، غروب، اغرب، تغریب، استغراب، مستغرب، مغرب، مغربی، مغارب، مغربیت، مغربین بھی مستعمل ہیں۔
سو، راقم کی جانب سے غریب طبقے کی سیاسی، سماجی اور معاشی نمایندگی کے لیے، ایک نیا اصلاحاتی لفظ متعارف اور تجویز کیا گیا ہے۔ واضح رہے، عوام یعنی اغرابیہ کو ہمیشہ ہی سے ذہنی طور پر اشرافیہ اور اُس کی اولاد کے حقِ حُکم رانی کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر اتفاق یا قسمت سے کوئی عام آدمی اقتدار کا حصّہ بن بھی جائے تو اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود جلد ہی اشرافیہ کا تابع فرمان ہونے پرمجبور کردیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خواص کی حکومتوں میں عوام یعنی اغرابیہ کی حالت آج تک نہیں بدل سکی۔ تاہم، اشرافیہ کی بیخ کنی سے کہیں بہتر ہے کہ اُنھیں تسلیم کر کے، اشرافیہ (خواص) اور اغرابیہ (عوام) کی نئی سیاسی تعریف اور حد مرتب اور معیّن کرلی جائے۔
راقم نے، لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کی اُردو لغت میں شمولیت اورفروغ کے لیے، مورخہ 14؍ جنوری 2025ء اور پیش رفت نہ ہونے پر، 123دن بعد دوبارہ مورخہ 17؍مئی 2025ء کو ادارۂ فروغِ قومی زبان، اردو ڈکشنری بورڈ، انجمنِ ترقیٔ اردو، فیروزالغات، بشمول ریختہ فاؤنڈیشن (انڈیا)، اردو ریسرچ جرنل (انڈیا) نیشنل کاؤنسل فارپروموشن آف اردو لینگویج (انڈیا) سےبذریعہ خطوط اور ای میلز تحریری رابطے بھی کیے۔
نیز، پاکستان، بھارت اور دنیا بھرمیں اُردو لغات اوراشاعت سے متعلق دیگر تمام اداروں سے بھی ملتمس ہے کہ اس اصطلاحی لفظ کو بلاتاخیر مذکورہ اداروں کی جانب سے، آئندہ شائع کی جانے والی اُردو لغات وجرائد میں شامل کیا جائے۔
یاد رہے، راقم کی تجویز پر ادارہ فروغِ قومی زبان، اردو لغت بورڈ، کراچی کی جانب سے ایک خط بھی موصول ہوا، جس کا متن اس طرح ہے۔ ’’لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کے اُردو لغت میں اندراج کے لیے آپ کا مکتوب موصول ہوا۔ ’’اشراف‘‘ بنیادی طور پر عربی لفظ ہے، جو کہ ’’شریف‘‘ کی جمع ہے، جس سے لفظ اشرافیہ مستعمل ہے۔
اِس کے مقابلے میں تجویز کردہ لفظ ’’اغرابیہ ‘‘کی اصل ’’غریب‘‘ ہے، لیکن غریب کی جمع عربی اور اُردو دونوں میں ’’اغراب‘‘ مستعمل نہیں۔ سرِدست اُردو لغت (تاریخی اصول پر)کی نستعلیق اشاعت (بلاترمیم و اضافہ) کا سلسلہ جاری ہے، جس میں حرف ’’الف‘‘ کی جلد طبع ہوچکی ہے، البتہ آپ کے تجویز کردہ لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کو لغت کے نظرِ ثانی کے مراحل میں ماہرینِ لغت کےسامنے پیش کر کے زیرِ غور لایا جائے گا۔‘‘
بہرکیف، استدعا ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کی اہمیت، حیثیت اور شناخت کے لیے اِس نئے اصلاحاتی لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کے استعمال پر ضرور غور کیا جائے۔مزید برآں، مُلک کے تمام اخبارات و جرائد کے ایڈیٹرز، صحافی، ٹی وی چینل مالکان، اینکرز سمیت فروغِ اُردو سے متعلق تمام اداروں تمام یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور اسکول، کالج، مدارس کے سربراہان، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بشمول تمام ججز، صدر ووزیرِاعظم پاکستان، سینیٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور تمام سینیٹرز، قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور تمام ممبرانِ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے وزرائے اعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر ممبرانِ صوبائی اسمبلی، صوبوں کے گورنرز، تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان و کارکنان، سرکاری ملازمین بشمول پاکستان میں موجود سفارتی ذمّےداریوں پر فائز افراد سے بھی اُمید کی جاتی ہے کہ غریب عوام کے لیے، جدید اصلاحاتی لفظ ’’اغرابیہ‘‘ کے استعمال پر ضرور غور و فکر کریں گے۔