ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں قائداعظم تو ایک ہی پیدا ہوئے ہیں اور اِسی طرح ان کی ایک ہی ہمشیرہ فاطمہ جناح مادرِ ملت بنیں۔دونوں کا تضادستان میں رتبےکے اعتبار کوئی ثانی ہے نہ ہوسکتا ہے کہ وہ دونوں اس ملک کے بانی ہیں۔ذہن نشین رہے کہ بانی کا کوئی ثانی نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کر ےبھی تو اس کا کوئی معانی نہیں ہوتا۔
محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب عوام نے دیا۔تاہم انکے بعد لوگوں نے خود کو بڑا بنانے یا بڑا بنا کر دکھانے کے شوق میںمختلف النوع خطابات و القابات اپنائے،کچھ کے حاشیہ برداروںنے ان کے ناموں کے ساتھ بڑے بڑے لاحقے لگانا شروع کردیئے۔ لیاقت علی خان قائد ملت کہلائے، ملک غلام محمد کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے خادمِ ملت کہلوانا شروع کر دیا ،اسکندر مرزا مرد آہن پکارے جاتے تھے اور ایوب خان قائد انقلاب، یحییٰ خان آئے تو وہ خلیفہ بننے کے خواب دیکھنے لگے، بھٹوقائد عوام کہلائے اور بے نظیر بھٹو دختر مشرق، نواز شریف میڈ ان پاکستان اور عمران خان مرشد کے رتبے پر فائز ہوگئے چلو یہاں تک تو درست تھا کہ آپ کے حامی آپ کو خطابات دیتے رہتے ہیں اور آپ انہیں ہنس کر یا خوش ہو کر ٹال دیتے ہیں مگر جوسب سے بڑی اور بُری وبا پھوٹی ہےوہ قائداعظم ثانی اور فاطمہ جناح کہلانے کی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں ایک دہائی تک جو نظریاتی مقابلہ رہا اس میں نواز شریف کو قائداعظم ثانی کے لقب سے پکارا گیا ،ایک متوالے نے تو اس عنوان کے تحت ایک کتاب بھی لکھ ماری۔ بظاہر نواز شریف نے خود کبھی اس لقب کو نہ مشہور کروایا اور نہ اس پر صاد کیا مگر حال ہی میں ایک پڑھے لکھے دانشور نے انہیں 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے لیکر آج تک کا سب سے بڑا لیڈر قرار دے دیا،گویا انہوں نے نواز شریف کی تعریف کرتے کرتے انہیں قائداعظم اور دوسرے تمام اکابر مسلم لیگیوں سے بڑا قرار دے دیا ،یہ طریقہ مضحکہ خیز ،بھونڈا اور قابل مذمت ہے۔ حال ہی میں سرکاری فنڈز سے نواز شریف اور مریم نواز شریف کے نام سے سرکاری منصوبوں کا آغاز کسی بھی طرح مستحسن نہیں ، اصولی طور پر کسی زندہ لیڈر کی قدر وقیمت اور قدوقامت کا اندازہ اسکی زندگی میں ہوہی نہیں سکتا، چنانچہ کسی منصوبے کو کسی شخصیت سے معنون کرنا بھی ہو تو ایسا اس کی زندگی کے بعد کیا جاتا ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ زندہ لوگوں کےناموں پر گلیاں، بازار اور سٹرکیں کبھی مشہور نہیں ہو پاتیں۔ لوگ انہیں سرکار کے دیئے گئے ناموں سے نہیں عوامی ناموں سے ہی پکارتے ہیں۔
سر کار تو خیر جو کرتی رہی ہے اس کا سب کو علم ہے اور سب اس پرتنقید بھی کرتے ہیں مگر اپوزیشن بھی اس مرض سے خالی نہیں ۔سیاسی جماعتیں اپنےلیڈروں کو انسان نہیں سمجھتیں انہیں دیوتا بنا کر پو جتی ہیں یہی حال عوام کا ہے کہ انکے پسندیدہ لیڈر کی کسی پالیسی پر اختلاف کیا جائے تو لفافی، غدار اور دشمن جیسے ’’خطابات‘‘ دینا معمول بن چکا ہے۔ سیاست میں اندھی عقیدت پیرو کاروں کی آنکھیں اور ذہن بند کر دیتی ہے جس سے وہ اپنے لیڈر کی اچھائیوں اور برائیوں پر نقد و نظر کے قابل نہیں رہتے ۔جب لیڈر کو دیوتا مان لیا جائے تو پھراس کی پوجا ہی ہوگی اس پر تنقید یااس کا احتساب کیونکرممکن ہے؟
یہ بیماری ہمارے ملک کی سبھی جماعتوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مڈل کلاس جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف بھی اسی مرض کا شکار ہے خان کے دور کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ تحریک انصاف میں عمران خان کو قائداعظم کا ہم پلہ، انکا ثانی اور انکا ہم زاد قرار دینے کا رواج عام ہے، تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں بھی قائد اعظم کی شبیہ سے بھی خانِ اعظم کی تصویر بنتی نظر آتی تھی۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے کہ ہر ایک لیڈر کو قائداعظم بننے کا شوق ہے مگر یہ شوق اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب خان کی بہن علیمہ خان کو نئی فاطمہ جناح بنانے کی کوشش کی جائے ۔پہلے بشریٰ بی بی، نئی نصرت بھٹو اور نئی کلثوم نواز بننے نکلی تھیں مگر اب وہ عملی جدوجہد سے زیادہ دعائیں کرنے اور دشمنوں کو بددعائیں دینے پر متوجہ ہیں۔
اب کئی ایک بزعم خویش فاطمہ جناح بننے کیلئےمیدان میں اتر چکی ہیں۔ اصل فاطمہ جناح نے فیلڈ مارشل ایوب خان کا مقابلہ کیا تھا اور اب مثلِ فاطمہ جناح علیمہ خان ،فیلڈ مارشل عاصم منیر کا مقابلہ کریں گی، اصل بات تو یہ ہے کہ مرشد نئی نصرت بھٹو یعنی بشریٰ بی بی کو آگے لاکر کلثوم نواز بنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ یا مرشد، پیرنی کو محفوظ رکھ کر علیمہ خان کو نئی فاطمہ جناح بنانے کے خواہشمند ہیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ خطابات سے آپ خود کو بڑا محسوس کر سکتے ہیں مگر ویسا خود کو بنا نہیں سکتے۔ کئی پہلوان رستم پنجاب اور رستم ہند کہلاتے رہے کوئی ایران کے اصلی رستم کی جگہ نہ لے سکا، کئی لکھاری اردو اور پنجابی کے شیکسپیئر کا خطاب پاتے رہے مگر کوئی شیکسپیئر کا مقام نہ پاسکا اور نہ شیکسپیئربن سکا ،کئی گلوکار اپنے عہدکے تان سین کہلائے مگر تان سین جیسا کوئی نہ ہو سکا۔کئی ایک سخاوت میں حاتم طائی کہلوانے کے شائق تھے مگر کوئی حاتم طائی کی پرچھائیں تک نہ ثابت ہوا۔ کئی ایک افلاطون سمجھےیا پکارے جاتے ہیں مگر یونانی افلاطون ایک ہی تھا جس کا آج تک ڈنکا بجتا ہے ۔
خدمت خلق میں بہت سوں نے نام ضرور کمایا مگر کوئی ایدھی کے رتبے تک نہ پہنچ پایا۔ علم سیاسیات کی چالاکیوں کو بیان کرنے کی کئی ایک نے کوشش کی مگر کوئی میکاولی اور چانکیہ کے مقام کو نہ چھو سکا ۔ شاعر گو بہت ہیں مگر میرؔ اور غالبؔ کوئی نہیں ،اقبالؔ اور فیضؔ تک پہنچنا بھی فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتا۔ برصغیر میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر اکبراور اشوکا واقعی اکبر اعظم اور اشوک اعظم کہلانے کے مستحق تھے،کئی ایک بادشاہوں نے اکبر ثانی نام رکھ کر اکبر بننے کی کوشش کی اور کئی ایک نے بدھ مت کو پھیلانے میں اشو کا جیسا کردار نبھانے کی سعی کی مگر کوئی اکبر اور اشوک کی گرد کو بھی نہ پا سکا۔
قائد اعظم اور فاطمہ جناح کارتبہ انکے کردار اور جدوجہد کی وجہ سے ایسا عظیم تر ہے کہ ان جیسا خطاب اورمرتبہ حاصل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں خود کو قائداعظم، فاطمہ جناح ، شاعر اعظم یا ادیب اعظم کہلوانے کی بجائے یہ کام تاریخ پر چھوڑنا ہوگا۔ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کس نے تاریخ کے کوڑے دان میں جانا ہے اور کس نےاپنی عظمت و تابناکی کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔