ماسٹر ندیم کا قد چھ فٹ سے بھی کچھ نکلتا ہوا تھا۔ راولپنڈی کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتے تھے۔ پہلے بھی دو حج کر چکے تھے اور اسی نسبت سے گروپ کے امیر مقرر ہوئے تھے۔ اس گروپ میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر بھی شامل تھے جو اپنی والدہ کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے۔ ماسٹر صاحب کی زوجہ بھی گروپ میں شامل تھیں ،مزاج شناسی کا عالم ایسا کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے گفتگو کر لیتے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔ اسی لئے وہ اکثر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے پائے جاتے تھے، خاص طور پر جب ماسٹر صاحب اپنے تئیں کوئی ’معرکہ‘ سر کر لیتے تھے یا کوئی مسئلہ حل۔ ایسے مواقع پر ان کی آنکھوں میں فخرو انبساط اور ان کی زوجہ کی آنکھوں میں ان کیلئے ستائش ہوتی اور وہ اپنی قسمت پر نازاں نظر آتیں۔کہنے کو تو ماسٹر صاحب گروپ کے امیر تھے لیکن وہ کسی پر اپنی رائے مسلط نہیں کرتے تھے، سب کے ساتھ ایک سا سلوک روا رکھتے تھے اور انہیں ایک سی ذمہ داریاں سونپتے تھے۔ گروپ کے اراکین بھی ماسٹر صاحب کی مکمل اطاعت کرتے تھے۔ اور تو اور وہ افسر صاحب بھی انکے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھتے تھے۔ اپنی باری پر سامان اٹھاتے، سب کیلئےکھانا لایا کرتے، برتن سمیٹتے اور مختلف مواقع پر لائن میں کھڑے بھی نظر آتے تھے۔ گویا ایک مکمل مساوات تھی جو خدا کے گھر آئے مہمانوں پر ماسٹر صاحب نے نافذ کر رکھی تھی۔ ایک سا احرام باندھے، ایک سے کلمات ادا کرتے، ایک کعبہ کا طواف کرتے، ایک سی مشقتیں جھیلتے، ایک ہی خدا کی بندگی کرتے کوئی ان میں فرق کرتا بھی تو کیونکر۔ مکمل ہوا تو وطن واپسی شروع ہوئی۔ ماسٹر ندیم اور افسر صاحب ایک ہی فلائٹ سے لوٹے۔ طیارے سے اترے تو ایک بس مسافروں کو ایئرپورٹ کی مرکزی عمارت میں لے جانے کو تیار کھڑی تھی۔ ماسٹر صاحب اسکی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ انہیں افسرصاحب کی آواز آئی جو انہیں دوسری طرف بلا رہے تھے۔ وہاں ایک فلائنگ کوچ موجود تھی جس میں ایک پروٹوکول والا خاص مہمانوں کو بڑے احترام سے بٹھا رہا تھا۔ اس نےافسر صاحب کو بھی خوش آمدید کہا البتہ ماسٹر صاحب کو سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا کہ ایسا کوئی نام اس کی لسٹ میں شامل نہیں تھا۔ اسے شش وپنج میں دیکھ کر افسر صاحب نے اسے بتایا یہ میرے ساتھ ہیں۔ ماسٹر صاحب اپنی زوجہ کے ہمراہ کوچ کے عقبی حصے میں بیٹھ گئے۔ کوچ سیدھی وی آئی پی لاؤنج میں پہنچی۔ ماسٹر صاحب اور ان کی زوجہ کو پھر گیٹ پر روک لیا گیا کہ آپ کون اور کہاں۔ ماسٹر صاحب نے خاصی خجالت محسوس کی، خاص طور پر اپنی زوجہ کی موجودگی کے سبب۔ اتنے میں افسر صاحب ان کی کمی محسوس کر کے واپس لوٹ آئے اور ان میاں بیوی کواپنے ساتھ اندر لے گئے۔وی آئی پی لاؤنج میں ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ آپ، جناب، سر اور صاحب سے کم تو کوئی کسی کو مخاطب ہی نہیں کر رہا تھا۔ جج، جرنیل، وزیر، مشیر، سیاستدان، سرکاری افسران، غرض ہر طرح کے وی آئی پی وہاں موجود تھے اور عزت پا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو ایسا لگنے لگا کہ گویا وہ کسی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہوں۔ لوگ انہیں یکسر نظرانداز کر دیتے تھے۔ وہ تو بھلا ہوافسر صاحب کا جو ہر موقع پر کہہ دیتے کہ یہ میرے ساتھ ہیں ورنہ ماسٹر صاحب کو تو کسی نے چائے بھی نہ پوچھنی تھی۔ حج کا امیر اپنے وطن پہنچتے ہی غریب ہو چکا تھا!ہر محکمے کے اپنے پروٹوکول والے آئے ہوئے تھے اور بھاگم بھاگ اپنے مہمانوں کی کاغذی کارروائیاں پوری کر رہے تھے۔ افسر صاحب کے محکمے کا پروٹوکول والا اپنے صاحب اور ماسٹر صاحب کی پرچیاں لے کر سامان لینے چلا گیا۔ چائے پینے تک ٹرالیوں پر لدا ان کا سامان آ گیا۔ امیگریشن کے مراحل بھی منٹوں میں نبٹ گئے۔ وی آئی پی لاؤنج سے باہر نکلے تو بڑی بڑی گاڑیاں لائنوں میں لگی ہوئی تھیں۔ افسر صاحب، ماسٹر صاحب سے انتہائی اخلاق سے گویا ہوئے کہ میں آپ کو گھر تک چھوڑ آتا ہوں۔ ماسٹر صاحب نے انہیں ٹال دیا کہ ان کے گھر والے انہیں لینے آئے ہونگے۔ افسرصاحب کی گاڑی روانہ ہوئی تو ماسٹر صاحب نے دور اُفق پر ٹیکسی کے انتظار میں نظر گاڑ دی کہ وی آئی پی لاؤنج میں تو ٹیکسی بھی نہیں ہوتی۔ آج تو نہ جانے کیوں وہ اپنی زوجہ سے بھی نظریں چُرا رہے تھے۔ وہ ساڑھے چھ فٹ کا استاد اندر ہی اندر اس وقت اپنے آپ کو ایک بونا محسوس کر رہا تھا۔ انہوں نے کن انکھیوں سے اپنی زوجہ کی طرف دیکھا جو خود بھی دانستہ کسی دوسری طرف دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر البتہ ایک عجیب طرح کی اداسی طاری تھی جو چغلی کر رہی تھی کہ ان کے دل کا ہیرو درحقیقت اس معاشرے کا زیرو تھا!