(گزشتہ سے پیوستہ)
گوروں نے 1849ءمیں لاہور پنجاب اور برصغیر کے دیگر علاقوں کو اپنے زیرِ نگیں کر لیا ۔ اگرچہ5718میں انگریزوں کیخلاف بغاوت ہو گئی تھی مگر انگریزوں نے پورے برصغیر میں شعبہ صحت ،شعبہ تعلیم اور ریلوے کے نظام کو مضبوط کرنے پر بھرپور توجہ رکھی۔آج لاہور اور پورے بر صغیر میں انگریز کا دیا ہوا ریلوے کا نظام جیسے تیسے چل رہا ہے اگرچہ ہم نے لوٹ مار کر کے خراب کر دیا ہے ۔انگریزوں کے تعمیر کردہ تعلیمی ادارے اور ہسپتال کام کر رہے ہیں۔آپ یہ دیکھیں لاہور سے جو پہلی ٹرین امرتسر سے ڈیڑھ سو برس قبل گئی تھی اس کی ریلوے لائن آج بھی استعمال کے قابل ہے بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر1سے وہاں سے چلتی رہی ہم نے خود اس ریلوے پٹڑی کو دیکھا اور اس کی تصاویر بھی بنائی ہیں جبکہ جو ریلوے لائنیں ہم نے بچھائیں وہ بیٹھ گئیں، وہ سڑکیں ٹوٹ گئیں۔ ایک بارش ہی سے لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں کی سڑکوں میں گڑھے پڑ گئے۔ ہسپتالوں میں بارش کا پانی آچکا ہے، وارڈوں میں پانی بھر گیا ہے۔ انگریزوں کے دور میں کسی سرکاری ہسپتال میں ایسا نہ ہوا۔آپ اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، پڑھ لیں۔ انگریز وںنے جو بھی کام کیا اس میں پائیداری تھی اور ہم نے 77 سال میں جو بھی کام کیا وہ صرف خوبصورت الفاظ کے ذریعے پائیداری کا مظاہرہ تھا عملاََ پائیداری کہیں نہیں تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ قابل احترام وزیراعلیٰ مریم نواز شریف اپنی تصویروں اور تقریروں میں شعبہ صحت و شعبہ تعلیم کے حوالے سے جو دعوے کر رہی ہیں وہ کس حد تک پورے ہو رہے ہیں اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیں جناب جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کا نام تبدیل کر کے مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کر دیا گیا ہے ۔حالانکہ یہ ادارہ سابق حکومت کے دور میں جناح ٹراما سنٹرکے نام سے تعمیر کیا گیا تھا اور اب اس کا نام تبدیل کر دیا گیابقول وزیر اعلیٰ کہ یہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایکسٹینشن ہے تو پھر اس کا نام پی آئی سی دوم کر دینا چاہئے تھا۔قائد اعظم کا نام اس ادارے سے اتارنا بالکل غیر مناسب ہے ۔ہمارا خیال ہے علامہ اقبال میڈیکل کالج کا نام بھی اب تبدیل کر کے مریم نواز میڈیکل کالج کر دینا چاہیے۔آخر کتنے ادارے حکمرانوں نے اپنے نام کرنے ہیں۔ صحت کارڈ سرکاری ہسپتالوں میں بند کر دیا گیا ہے پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر مکمل علاج نہیں ملے گا کچھ بیماریوں کو صحت کارڈ سے ختم کر دیا گیا ہے ۔آنکھوں کےآپریشن اور گائنی کےآپریشن ختم کر دیے ہیں وہ صحت کارڈ پر نہیں ہوں گے۔ ارے عقل کے اندھو! آنکھوں کی معذوری انسان کو غربت میں دھکیل دیتی ہے ۔جب انسان دیکھ نہیں پائے گا تو کام کاج کیسے ہو گا۔آنکھوں کی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کے بروقت علاج اور بعض صورتوں میں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ جانے وزیراعلیٰ کا کون مشیر ہے جو اس قسم کے تجربے کر کے ان کا ووٹ بینک خراب کر رہا ہے۔ صحت کارڈ کے بارے میںآئندہ تفصیل سے بات کرینگے۔انگریزوں نے جب یہاں پر اقتدار سنبھالا تو انہوں نے4 185 میں انسپکٹر جنرل پریزن اینڈ ڈسپنسریز کا عہدہ بنایا اور پہلے انسپکٹر جنرل پریزن DR.CHATHAYAIمقرر ہوئے۔ اور دوسرے اس عہدے پر سرجن جنرل A.M.DALLAS.C.I.E مقرر ہوئے۔ 1880 ء میں یہ عہدہ صرف آئی جی ڈسپنسریز ہو گیا اور1880ءمیں انسپکٹر جنرل سول ہاسپٹلز پنجاب ہو گیا۔ 1949ءڈائریکٹر ہیلتھ سروسز پنجاب پھر ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز لاہور ریجن ویسٹ پاکستان پھر پنجاب اور اب ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب۔ انگریزوں نے نہایت منظم اور اچھے انداز میں صحت کا نظام چلایا۔ لاہور میں کو پر روڈ پر انسپکٹر جنرل پریزن اینڈ ڈسپنسریز کی بہت خوبصورت پرانے طرز تعمیر کی کوٹھی تھی جو 2000 میں گرا دی گئی ہم اس کوٹھی میں محکمہ صحت کے افسران کو ملنے جایا کرتے تھے ایک تاریخی کوٹھی تھی جسے محفوظ کرنے کی ضرورت تھی۔ انگریزوں کا دیا ہوا ہے ہیلتھ سسٹم 1980 تک بڑے احسن انداز میں کام کرتا رہا ٹیچنگ اسپتالوں کا پرنسپل چیف ایم ایس کے طور پر آج بھی کام کرتا ہے مگر اب اس کی وہ اہمیت نہیں۔ نون لیگ کی حکومت جب بھی آتی ہے تو ہر شعبے میں تجربے شروع کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اچھا خاصا چلتا ہوا نظام بگاڑ میں چلا جاتا ہے پہلے کوئی بورڈ آف گورنر، بورڈ آف مینجمنٹ نہیں تھے۔ ٹیچنگ اسپتال کا ایم ایس پرنسپل کےما تحت ہوتا تھا جسکی وجہ سے سارے اسپتال کا نظام درست انداز میں چلتا رہتا تھا۔ آپ بے شک گوروں کے دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں کسی اسپتال میں ادویات کی کمی ،کہیں پر بھی ڈاکٹر اور مریضوں کے درمیان مار پیٹ کے واقعات ہوئے ہوں بلکہ کئی سرکاری اسپتالوں کے بیڈ خالی پڑے ہوتے تھے کہیں پر بھی آج کی طرح پرائیویٹ اسپتالوں کی بھر مار نہ تھی ۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ کوئی سرکاری ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کر سکے۔ ہمیں یاد ہے کہ وچھو والی اندرون لاہور میں سرگنگا رام فری ڈسپنسری تھی اس میں دو سرکاری ڈاکٹر اعزازی طور پر ڈیوٹی کے بعد کام کیا کرتے تھے اپنی خوشی اور خدمت خلق کے جذبے سے۔آج کوئی ڈاکٹر خدمت خلق کے جذبے سے کام کرنے کو تیار ہے؟ لاہور کیا پورے ملک کے پرائیویٹ اسپتالوں نے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں ۔ہمیں یاد ہے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد تسلیم نے بڑی محنت کے بعد پنجاب کے پرائیویٹ اسپتالوں کے کمروں، علاج اور مختلف ٹیسٹوں کے ریٹ طے کیے تھے اور جب تک وہ اس ادارے میں رہے بڑے احسن انداز سے پرائیویٹ اسپتالوں کو چیک کیا جاتا رہا۔ اب تو پرائیویٹ اسپتال بے مہار ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی وزیر صحت اور وزیراعلیٰ نے پرائیویٹ اسپتالوں کو چیک کیا ہے پھر اس شہر میں جو ٹرسٹ اسپتال ہیں ذرا ان کے ریٹ بھی تو چیک کریں وہ بھی کئی پرائیویٹ اسپتالوں سے زیادہ یا ان کے برابر ہیں ٹرسٹ اسپتال کا مطلب تویہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی کم نرخ میں صحت کی سہولیات فراہم کریں گے ۔( جاری ہے)