• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا اس وقت شدید اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی بحرانوں سے دوچار ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری جیسے مسائل نے انسانیت کو ایک نئے امتحان سے دوچار کر رکھا ہے۔ ان حالات میں وہ نظام ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے جو نہ صرف اقتصادی ترقی کی ضمانت دے بلکہ معاشرتی انصاف اور عوامی شمولیت پر مبنی ہو۔ یہی وہ اصول ہیں جنکی بنیاد پر تحریکِ امدادِ باہمی (Cooperative Movement) قائم ہوئی اور جسے آج دنیا ایک پائیدار حل کے طور پر دیکھ رہی ہے۔انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس (ICA) جو دنیا بھر میں امدادِ باہمی کے اداروں کی عالمی تنظیم ہے، ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے کو ’’عالمی یومِ امدادِ باہمی‘‘کے طور پر مناتی ہے۔ اس سال کیلئے منتخب کردہ تھیم نہایت جامع اور بامعنیٰ ہے:

''Cooperatives: Driving Inclusive and Sustainable Solutions for a Better World''

یعنی’’امدادِ باہمی:بہتر دنیاکیلئے جامع اور پائیدار حل کی راہنما قوت‘‘۔یہ موضوع نہ صرف عالمی برادری کو امداد باہمی کے اداروں کی افادیت کی جانب متوجہ کرتا ہے بلکہ 2025ءکو منائے جانیوالے ’’عالمی سالِ کوآپریٹو‘‘کے اہداف کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ان اہداف میں غربت کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی، سماجی انصاف اور مہذب روزگار کے مواقع پیدا کرنا سرفہرست ہے۔امدادِ باہمی کا تصور انسان کی اس جبلّت سے جڑا ہوا ہے جس میں وہ دوسروں کے ساتھ مل کر، باہمی بھروسے اور تعاون سے زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے۔ جب انفرادی مفادات کو اجتماعی فلاح کے تابع کر دیا جائے تو جو نظام جنم لیتا ہے، وہی امدادِ باہمی کی اصل روح ہے۔ اس تحریک کا آغاز انیسویں صدی میں یورپ سے ہوا، اور جلد ہی دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس کی افادیت محسوس کی جانے لگی۔ 1895 میں ICA کے قیام کے بعد اس تحریک کو بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط پلیٹ فارم میسر آیا، جسکے تحت دنیا بھر میں لاکھوں کوآپریٹو ادارے سرگرم عمل ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، اور جہاں معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے، امدادِ باہمی کا نظام نہایت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی 80 فیصد دیہی آبادی زراعت، مویشی پالنے، چھوٹے کاروبار اور گھریلو صنعتوں پر انحصار کرتی ہے۔ اگر ان افراد کو ایک منظم کوآپریٹو نظام کے ذریعے مالی وسائل، تربیت، مارکیٹ تک رسائی اور توانائی کی سہولیات فراہم کر دی جائیں تو نہ صرف انکی زندگی میں خوشحالی آ سکتی ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی ایک مستحکم بنیاد فراہم ہو سکتی ہے۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں کوآپریٹو سوسائٹیز کے تحت زراعت، ہاؤسنگ، اور چھوٹے قرضوں کے نظام کے ذریعے کچھ مثبت مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں، لیکن ان کی افادیت کو قومی سطح پر وسعت دینا باقی ہے۔ ایک مربوط پالیسی کے تحت اگر امدادِ باہمی کے اصولوں پر مبنی اداروں کو توانائی، صنعت، تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی فعال کیا جائے تو یہ تحریک پورے ملک میں ایک معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔خاص طور پر توانائی کے میدان میں، جہاں ہمارے ملک کو شدید بحران کا سامنا ہے، امدادِ باہمی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے سولر، بائیو گیس، ونڈ انرجی اور مائیکرو ہائیڈل منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں دیہی توانائی منصوبے مقامی کوآپریٹو اداروں کے ذریعے نہایت کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس سے مقامی روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور مہنگی درآمدی توانائی پر انحصار بھی کم ہوتا ہے۔بین الاقوامی سطح پر جاپان، سنگاپور، بھارت، کینیا، برازیل اور کئی یورپی ممالک میں امداد باہمی کا ماڈل کامیابی کی علامت بن چکا ہے۔ بھارت میں امول (Amul) جیسا ڈیری کوآپریٹو ادارہ دیہی معیشت کو مضبوط کرنے کی ایک شاندار مثال ہے۔ جاپان میں زرعی کوآپریٹوز نے مقامی کاشتکاروں کو معاشی طور پر خودمختار بنایا ہے۔ ان تجربات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امدادِ باہمی کا ماڈل صرف سماجی فلاح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کا ستون بھی بن سکتا ہے۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امداد باہمی کے ادارے صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں بلکہ یہ افراد میں دیانت، شفافیت، خود انحصاری اور باہمی اعتماد جیسے اوصاف کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ ان اداروں کی جڑیں معاشرے کے اندر ہوتی ہیں اور ان کا دائرہ کار مقامی ضروریات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یہی خصوصیت انہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور روایتی بینکاری نظام سے ممتاز بناتی ہے۔عالمی یومِ امدادِ باہمی منانے کا مقصد صرف تقریبات کا انعقاد نہیں بلکہ دنیا بھر کے کوآپریٹران کی اس اجتماعی وابستگی کا اظہار ہے کہ وہ انسانیت کی بہتری کیلئے مل کر کام کریں گے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم سب کا مفاد ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ہم دوسروں کو سہارا دیتے ہیں، تو دراصل ہم ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں۔پاکستان میں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس تحریک کو صرف ایک نعرے یا تصور تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے عملی صورت میں اپنائیں۔ تعلیمی اداروں میں امدادِ باہمی کے اصولوں کو شامل کیا جائے، نوجوانوں کو اس کی افادیت سے روشناس کرایا جائے اور حکومتی سطح پر پالیسی سازی میں اسے ترجیح دی جائے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں کوآپریٹو بینک، زرعی سوسائٹیز، خواتین کے خود امدادی گروپ اور طلبہ کیلئے تعلیمی و فنی منصوبے اس تحریک کے تحت شروع کیے جا سکتے ہیں۔

آج کے دن ہمیں بحیثیت قوم یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم امدادِ باہمی کے فلسفے کو اپنائیں گے۔ سچائی، دیانتداری، محنت اور خلوص سے اس تحریک کو ملک کے کونے کونے میں پہنچائیں گے۔ جب ہر فرد دوسرے کا سہارا بنے گا، تبھی حقیقی فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔اللہ تعالیٰ پاکستان کو وہ بصیرت، اتحاد اور توفیق عطا فرمائے کہ ہم امدادِ باہمی کے اس روشن راستے پر چلتے ہوئے اپنے ملک کو معاشی، سماجی اور اخلاقی اعتبار سے خودکفیل اور باوقار بنا سکیں۔ آمین!

تازہ ترین