نیویارک سے بھارتی نژاد مسلمان ممبر ریاستی اسمبلی زہران ممدانی حیران کن طور پر اپنے مرکزی حریف سابق گورنر نیویارک اینڈریو کومو کو ڈیموکریٹک پرائمری الیکشن میں بارہ پوائنٹس سے شکست دیکر نومبر 2025میں ہونے والے میئر نیو یارک جنرل الیکشن کیلئے اپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد ہو گئے ہیں ، ترقی پسند نظریات کے حامی زہران ممدانی جنہیں سینیٹر برنی سینڈرز اور کانگریس وومن الیگزینڈریا کورٹیز جیسی با اثر سیاسی شخصیات کی حمایت حاصل ہے ، نوجوان ووٹرز کی حمایت سے میئر منتخب ہونے کیلئے پہلا لیکن اہم ترین مرحلہ عبور کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر ممدانی نے اپنے عظیم شہر کے باسیوں سے براہ راست رابطہ کیا، سوشل میڈیا اور ہزاروں کی تعداد میں پر عزم رضاکاروں نے انکا پیغام اور پروگرام گھر گھر پہنچایا۔ نیویارک میں بسنے والے شہریوں کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے زہران ممدانی نے نئے کم لاگت والے ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر، گھروں اور فلیٹوں کے بڑھتے ہوئے کرایوں کو منجمد کرنے ، کام کرنے والی مائوں کو مفت چائلڈ کیئر کی فراہمی، مفت سفری سہولتوں کی فراہمی ، سستے اشیائے خردونوش کے اسٹور قائم کرنے ، نسلی تعصب کے خاتمے اور نیویارک سٹی کو سب کیلئے بلا تفریق محفوظ شہر بنانے کے عزم کا اظہار کیاہے۔ اگر ممدانی نومبر میں دنیا کے فنانشل کیپٹل نیویارک سٹی کے میئر کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے تو اپنے سیاسی ایجنڈے اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہو گی جسکے لئے انہوں نے امیروں اور بڑی فنانشل کمپنیوں پر مزید ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا ہے، جس پر بزنس کمیونٹی اور بڑے کاروباری اداروں نے خدشات ظاہر کئے ہیں کہ مزید ٹیکس لگانے سے بڑے مالیاتی ادارے اور کاروبار دوسری کم ٹیکس لینے والی ریاستوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ قدامت پسند امریکی ممدانی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں ، انہیں خدشہ ہے کہ لندن کے مقبول مسلمان میئر صادق خان کی طرح زہران ممدانی میئر نیو یارک بن گئے تو سرمایہ دارانہ نظام ، مغربی تہذیب اور امریکن طرز زندگی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ امریکہ کے طاقتور صدر ٹرمپ نے بھی زہران ممدانی کوتنبیہ کرتےہوئے کہاہے کہ وہ سوشلسٹ و کیمونسٹ نظریات کا پرچار کرنے اور نیویارک کو تباہ کرنے سے باز رہے ، صدر نے احکامات نہ ماننے پر فیڈرل فنڈنگ روکنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ نیویارک کی میئر شپ کے امیدوار ممدانی کی طرف سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے توسیع پسندانہ عزائم پر تنقید اور انہیں انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی پر نیویارک آمد پر گرفتار کرنے کے بیان پر بھی کافی تنقید ہو رہی ہے جبکہ نیو یارک میں مقیم تقریبا ایک ملین یہودیوں کی اکثریت بھی زہران ممدانی کی ممکنہ جیت کواپنے لئے خطرہ محسوس کرتی ہے۔
نیویارک کی مضبوط یہودی کمیونٹی کی اکثریت نے سابق گورنر اینڈریو کومو کو سپورٹ کیا جنکے پرائمری الیکشن ہارنے سے انہیں شدید دھچکا لگا ہے اور وہ جنرل الیکشن میں ممدانی کو میئر شپ کا الیکشن جیتنے سے روکنے کیلئے نئی صف بندی کرتے ہوئے موجودہ میئر ایرک ایڈمز کی حمایت کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ سابق گورنر اینڈریو کومو نے پرائمری الیکشن ہارنے کے باوجود بطور آزاد امیدوار میئر کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، اس امید پر کہ شاید دو بڑے امیدواروں ایرک ایڈمز اور زہران ممدانی کے درمیان ووٹوں کی تقسیم سے انہیں فائدہ پہنچ جائے۔ نیو یارک سٹی ہمیشہ سے ڈیموکریٹس کا مضبوط گڑھ رہی ہے، اس لئے ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کی جیت کے امکانات بہت کم ہیں خصوصاََ جب صدر ٹرمپ کا جھکاؤ بھی موجودہ میئر آزاد امیدوار ایرک ایڈمز کی طرف نظر آتا ہے، جنکے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے کیسز حال ہی میں ختم کر دیئے گئے ہیں ۔ سیاہ فام موجودہ میئر ایرک ایڈم نے اپنے دور میں شہر کو محفوظ بنانے ، نسلی و مذہبی منافرت کو کم کرنے کیلئے قابل قدر کام کیا۔ گزشتہ الیکشن میں پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت نے مئیر ایرک ایڈمز کو سپورٹ نہیں کیا، مگر منتخب ہونے کے بعد ایڈمز نے پاکستانی کمیونٹی کیساتھ قریبی رابطہ رکھا اور دوسرے امیگرینٹس کے مقابلے میں ان سے ترجیحی سلوک کیا، انکی تقریبات میں باقاعدگی سے شرکت کی۔ انہی کے دور میں سٹی رولز کے مطابق مساجد میں اذان لاؤڈ اسپیکر پر نشر کرنے کی اجازت دی گئی اور پبلک اسکولوں میں مسلمان بچوں کو حلال کھانوں کی فراہمی شروع کی گئی۔ میئر ایڈمز نے پاکستانی حکومت کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل غیر قانونی تارکین وطن اور سیاسی پناہ حاصل کر نے والوں کی رہائش کیلئے بھاری معاوضے پر لیز کیا جس سے حکومت پاکستان کو کئی ملین ڈالر کا فائدہ ہوا۔ میئر ایرک ایڈمز کو پاکستانیوں سمیت ایشین امیگرنٹس ، لاطینی، ہسپانوی اور سیاہ فام لوگوں کی بڑی تعداد ووٹ دینے پر آمادہ نظر آتی ہے جبکہ صدر ٹرمپ کی حمایت بھی انہیں حاصل ہو گی۔ اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان امیدوار زہران ممدانی کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ میئر کا الیکشن جیتنے کیلئے صرف مسلمان ، ایشین اور ماڈریٹ پروگریسو نوجوان سفید فام ووٹروں پر تکیہ نہ کریں بلکہ اعتدال پسند یہودیوں ، لاطینی اور سیاہ فام لوگوں تک بھی اپنا پیغام پہنچائیں کہ نیو یارک شہر کو امن کا گہوارہ اور عظیم تر شہر بنانے کیلئے سب مذاہب اور نسلوں کے لوگ انکے شانہ بشانہ ملکر چلیں ، دوسرا انہیں چاہیے وہ اپنے مخالف لوگوں اور میڈیاکی طرف سے کسی بھی غیر ضروری بات کا جواب احتیاط سے دیں ۔ آخر میں نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی جو تعداد میں تو کم ہے مگر کافی فعال ہے اسکو چاہئے کہ پرانی غلطی نہ دہراتے ہوئے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ رکھے اور مخمصے میں رہنے کی بجائے تقسیم ہو کر دونوں مضبوط امیدواروں کیساتھ کھڑی ہو تاکہ جیتنے والے کو پاکستانیوں کی کنٹربیوشن اورمدد یاد رہے۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)