فیلڈ مارشل عاصم منیر نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ انڈیا صرف اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے گریزاں حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے دیگر دوست ممالک کو اس خالص دو طرفہ تصادم میں شامل کرنا چاہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میدان جنگ میں پاکستان نے انڈیا کو دھول چٹا دی تو اس شکست کے اسباب کو ایک دوسرے کے سر منڈھ دینا شکست کی نفسیات میں سے ہوتا ہے اور انڈیا میں اس وقتی یہی ہو رہا ہے کیونکہ ناکامی ہمیشہ یتیم ہوتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انڈیا اس جگ ہنسائی سے بچنے کیلئے کہ اسی ارب ڈالر اپنے لوگوں سے کشید کرکے غیر ملکی اسلحہ کی مد میں خرچ کرکے بھی اسے منہ کی کھانی پڑی ہے ،یہ بیانیہ تراش رہا ہے ۔ اس سے پہلے جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی یہ کہہ چکے تھے کہ ان 96 گھنٹوں کے دوران ہمیں کسی اور طرف سے جنگ میں براہ راست مدد حاصل نہیں تھی ۔ پاکستانی قوم کو اپنے دوست ممالک پر ہمیشہ فخر رہے گا مگر واقعات کو کسی دوسرے رخ پر موڑنے کو بہرحال روکنا چاہئے ۔انڈیا، اسکے فوجی افسران تو جو بھی راگ الاپتے رہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر پاکستان کے بعض عاقبت نااندیش افرادبھی جنگ کے پہلے دن سے ہی اس بات پر تبصرے کرنے لگے ، میڈیا پر اپنے تجزیات پیش کرنے لگے کہ اس کامیابی کی وجہ پاکستان کی برسوں پر محیط جنگی تیاری یا حکمت عملی نہیں بلکہ، اگر ہمیں بیرونی مدد حاصل نہ ہوتی تو خدانخواستہ نتیجہ مختلف ہوتا مگر میرے جیسے روز اول سے گزارش کر رہے تھے کہ یہ پاکستان کی تن تنہا کامیابی ہے اور اسکو کوئی مشترکہ حکمت عملی قرار دینے سے صرف انڈیا کا بیانیہ مقبول ہو گا۔ کسی کی نیت پر شک کئے بنابغیر اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہئے کہ پاکستان اپنے دفاع میں عين میدان جنگ میں خود کفیل ہے جبکہ زمانہ امن میں دیگر ممالک کی مانند پاکستان کے بھی اپنے دوستوں سے گہرے دفاعی تعلقات ہیں جیسا کہ انڈیا کے بھی ہیں اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت وہ تمام ممالک بھی انڈیا کے ساتھ پاکستان سے لڑ رہے تھے ۔ انڈیا کی اس نفسیاتی میڈیا جنگ کو سمجھنا چاہئے اور اس کا توڑ کرنا چاہئے کیوں کہ انڈیا بہر حال کسی وقت بھی، کسی بھی قسم کی حماقت دوبارہ بھی کر سکتا ہے اور انڈیا نے جو رویہ پانی کے امور پر اس وقت اختیار کر رکھا ہے وہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا مستقل بنیادوں پر امن نہیںچاہتا ۔ پانی کے مسئلہ پر انڈیا کو کسی گفتگو تک لانے میں پاکستان ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکاجو فکر مندی کی بات ہے۔
پاکستان کے پاس تو اس وقت سلامتی کونسل کی صدارت تک موجود ہے چنانچہ پاکستان کو تواس پوزیشن سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے مگر ایک ہفتہ بیت چکا ہے، سلامتی کونسل کے حوالے سے پاکستان کا کوئی اقدام سامنے نہیں آسکا ۔ اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے ورنہ بہت دیر ہونے کا امکان بڑھتا چلا جائیگا۔ اسی طرح امریکہ سے پاکستان کےجو تعلقات بڑھے ہیں ان پر بھی برق رفتاری سے کام ہونا چاہئے۔ امریکہ کے حوالے سے جب بھی بات کرو تو اکثر دوست ماضی کے واقعات کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں ۔ تاریخ ماضی سے سبق سیکھنے کیلئے ہوتی ہے ناکہ ماضی میں زندہ رہنے کیلئے ۔ امریکہ سے جو بھی معاملات کرنے ہیں وہ موجودہ تقاضوں کے مطابق کرنے چاہئیں ماضی کے تجربات معاملات کو بہتر انداز میں دیکھنے کیلئے سامنے رکھنے چاہئیں نا کہ انھیں ذہن پر ہی سوار کرلیا جائے ۔ امریکہ سے تجارت بڑھانے کیلئے ہر زاویہ کو سامنے رکھنا چاہئے بلکہ امریکی اتحادیوں کے امور بھی پیش نظر ہونےچا ہئیںجیسا کہ جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس سے کیسے مزید فائدہ اٹھایا جائے اور اس حوالے سے یورپ سے کیسے بہتر سے بہتر گفتگو کی جائے ؟ میں انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آج کی دنیا ملٹی الائنمنٹ کی دنیا ہے ، آج سابقہ سوویت یونین یا امریکہ کی سرد جنگ کا زمانہ نہیں ہے ۔ ہم اگر سمجھ داری سے کام لیں تو ہم اپنے دوستوں کو با آسانی اپنا مؤقف سمجھا سکتے ہیں اور پھر ان کو کسی بھی دوسرے ملک سے ہمارے تعلقات کے بڑھنے پر کوئی اعتراض یا پریشانی نہیں ہوگی ۔
سیکھا کہیں سے بھی جا سکتا ہے ، ہمارے سامنے انڈیا کی مثال موجود ہے ، انڈیا امریکہ کے ساتھ بھی ہر ممکن حد تک پینگیں بڑھا رہا ہے اور وہ برکس کا بھی رکن ہے کہ جسکے حوالے سے صرف صدر ٹرمپ ہی نہیں بلکہ جب سے برکس قائم ہوئی ہے اس وقت سے ہر امریکی انتظامیہ شاکی ہی ہے مگر وہ ہی انڈیا کواڈ کا بھی رکن بن کر بیٹھا ہوا ہے ۔ ابھی جب ایران اسرائیل جنگ چل رہی تھی اور آبنائےہرمز کو ایران کی جانب سے بند کرنے کے امکانات پر غور کیا جا رہا تھا تو اس وقت ایک مغربی سفارت کار سے اس موضوع پر بات ہوئی کہ اگر ایران کی جانب سے ایسا اقدام کیا گیا تو امریکا اور مغرب کی جانب سے کیا رد عمل ممکن ہے؟ اس سفارت کار نے جواب دیا کہ آپ نے امریکہ کے ساتھ صرف مغرب کا کیوں ذکر کیا ہے ۔ میں نے پوچھا کہ اور کس کا ذکر کروں تو جواب دیا گیا کہ وہاں بین الاقوامی پانیوں میں انڈیا کی بحریہ بھی موجود ہے اور وہ ہمارے ساتھ ملکر آبنائے ہرمز کو بند ہونے سے روکنے کیلئے مستعد ہوگی ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ملٹی الائنمنت کیسے کام کر رہا ہے اور ہمیں بھی محتاط ہو کر اس کی جانب بڑھنا چاہئے۔