• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کو پتہ چلے کہ کراچی شہر کس طرح وجود میں آیا،کراچی کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ کراچی کی مختصر تاریخ لکھ کر عوام تک پہنچائی جائے۔ جس مقام کو اس وقت کراچی کہا جاتا ہے وہ کسی وقت سمندری کنارے والا علاقہ جانا جاتا تھا۔کراچی کے سمندر والے علاقے میں مچھلی بہت زیادہ ہوتی تھی۔اس لئےپورےسندھ سے مچھیرے یہاںآتے گئے کہ یہ مچھیروں کا علاقہ کہلانے لگا۔یہ آبادی اتنی بڑھی کہ ایک چھوٹا گائوں بن گیا۔ یہاں مچھیروں کے خاندان سے کچھ مچھیری خواتین نے مچھلی فروخت کرنےکے چھوٹے چھوٹےجھونپڑے بنالئے۔اس طرح یہاں سندھ بھر سے آکر آباد ہونے والوں کے گھر بھی بنتے گئے تو خواتین مچھیروں کے یہ جھونپڑےبھی کسی حد تک وجود میں آتے گئے۔یہ گائوں بڑھتے بڑھتے ایک چھوٹا شہر بن گیا۔ یہاں سب مچھیروں میں مقبول مچھیرن ’’مائی کلاچی‘‘تھی جسکی مچھلیاں اور پلے بہت مشہور ہوئے۔مائی کلاچی نام اتنا مشہور ہوگیا کہ اس چھوٹے شہر کا نام ہی ’’مائی کلاچی‘‘پڑگیا۔ وقت کے ساتھ شہر بھی مزید بڑا ہوتا گیا مگر اب بھی یہ مائی کلاچی کہلاتا رہا مگر بعد میں ’’مائی کلاچی‘‘ نام آہستہ آہستہ ’’کراچی‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔اس طرح کراچی شہر وجود میں آیا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا بڑا شہر پہلی بار نہ فقط سندھ صوبے بلکہ پاکستان میں وجود میں آیا‘ اس شہر پر مہربانی اگر ہے تو اس علاقے کے غریب لوگ خاص طور پر مچھیروں کی ہے مگر اب مچھیروں کو کون پوچھتا ہے؟ اب تو شہر سرمایہ داروں‘ جاگیر داروں اور افسر شاہی کا ہے‘ کراچی شہر کا فقط یہ ایک پہلو نہیں‘ اس کے چند اور بھی اہم پہلو ہیں جنکے بارے میں حقائق سامنے لانے چاہئیں‘ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت جو حلقے کراچی کے مالک بنے بیٹھے ہیں انکو اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ اگر دریائے سندھ سے سمندر میں آنے والے پانی کیلئےرکاوٹیں ڈالی گئیں‘ جو اب تک ہوتا رہا ہے تو (اللہ نہ کرے) سارا کراچی شہر جلد یا بدیر سمندر کے پیٹ میں جاسکتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی دریائے سندھ سے کوٹری بیراج کے ذریعے سمندر میں آنے والے پانی کو روکنے کیلئے ڈیم اور کئی کینال بنائے گئے مگر اب پھر ایک دو اور ڈیم ،کچھ کینال بنانے کا پروگرام تیار کیا جارہا ہے‘ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کراچی شہر کاوجود خطرے میں پڑ جائیگا۔ ملکی اور بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی طرف سے کچھ عرصے پہلے یہ رپورٹ آئی تھی کہ اگر دریائے سندھ کے پانی کو سمندر میں جانے سے روکا گیا تو شاید 2050 ء تک پورا کراچی شہر سمندر کے پیٹ میں ہوگا۔ ویسے حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں بھی سندھ کے اوپر سے ڈیم اور کینال بنانے کی وجہ سے دریائے سندھ سے سمندر والا پانی کافی حد تک رک جاتا تھا جسکے نتیجے میں نہ فقط کراچی بلکہ اندرون سندھ کے بھی کافی علاقے سمندر برد ہوچکے ہیں۔کراچی کے علاقے ملیر کے کافی علاقے جو سمندر کے کافی اندر تھے وہ سمندر برد ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو یہ علاقہ ترک کرکے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ اس مرحلے پر خاص طور پر اس بات کا ذکر کروں گا کہ کس طرح وفاقی حکومت کوٹری بیراج کے ذریعے سمندر میں پانی نہ چھوڑ کر سندھ کے ساتھ تو ناانصافی کرتی رہی مگر خود اپنے قانون کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی رہی‘ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ 1991ء میں چاروں صوبوں کے درمیان واٹر ایکارڈ 1991 ء کی جو منظوری دی گئی ،یہ معاہدہ تیار کرتے وقت اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان کافی دلیل و دلائل دیئے گئے‘ حکومت سندھ نے کوٹری بیراج کے نیچے سے سمندر میں پانی چھوڑنے کی Figure تجویز کی۔آخر طے یہ ہوا کہ فی الحال معاہدہ میں وہ Figure شامل کی جائے جسکی تجویز دی گئی ہے۔ جبکہ دونوں حکومتوں کے آبپاشی ماہرین اس ایشو کا جائزہ لیں گے اور جب کسی ایک Figure پر اتفاق ہوگا تویہ Figure ‘ 91 ء کے پانی معاہدے میں شامل کی جائے گی مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک اس سلسلے میں اتفاق نہیں ہوسکا اور Figure وہی ہے جو معاہدے پر دستخط ہونے کے وقت طے کی گئی تھی بلکہ کوٹری بیراج کے نیچے اس Figure سے کافی کم پانی بھیجا جارہا ہے جسکی وجہ سے کراچی کیلئے خطرات اور سنگین ہوتے جارہے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی ماحولیاتی ادارے اطلاع دیتے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو جلد یہ بدیر سارا کراچی سمندر برد ہوجائے گا۔

تازہ ترین