ہم اپنے خیالوں میں مگن گلبرگ کے بلیوارڈ پر چلے جا رہے تھے، اچانک ایک تیزرفتار گاڑی ’’شوں‘‘ کرتی ہمارے قریب سےگزری، تو توجّہ سڑک پر دوڑتی ٹریفک کی جانب مبذول ہوگئی۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کا ایک نہ ختم ہونے والا ریلا سڑک کی دونوں جانب مخالف سمتوں میں رواں دواں تھا، معاً دل میں خیال آیا کہ ایک چھوٹی گاڑی میں اوسطاً 40 سے60 لیٹر پٹرول کی گنجایش ہوتی ہے۔
موٹر سائیکل میں اس سے کم، جب کہ بڑی گاڑیوں میں سیکڑوں لیٹر ایندھن موجود ہوتا ہے اور ان ہزاروں گاڑیوں میں اسی تناسب سے پیٹرول بھرا ہوا ہے۔ یہ تو محض ایک سڑک کا منظر ہے، باقی سڑکوں پر بھی گاڑیوں کا یہی ہجوم اور روانی ہے، پھر پاکستان تو ایک چھوٹا سا مُلک ہے، جب کہ دنیا کے نقشے پرکئی بڑے بڑے ممالک موجود ہیں، جن کے ہر شہر میں لاکھوں گاڑیاں دوڑرہی ہیں۔
نیز، سمندر ہیں، لاکھوں میل پر پھیلے دریا اور دیگر آبی ذخائر، جہاں بےشمار بحری جہاز، کشتیاں اور آب دوزیں رواں دواں ہیں اور ان سے بھی آگے فضا کی لا محدود وسعتیں ہیں، جہاں ہر لمحے آہنی پرندے محوِ پرواز ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں سڑکوں پر تقریباً ڈیڑھ ارب گاڑیاں دوڑرہی ہیں، جو روزانہ تقریباً 7 سے 8 بلین لیٹر ایندھن استعمال کرتی ہیں۔
سمندروں میں چلنے والے بحری جہاز روزانہ 550 سے 700 ملین لیٹر ایندھن، جب کہ فضائی سفر کے ذرائع روزانہ 800 سے 950 ملین لیٹر ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ یوں روزانہ مجموعی طور پر 8.5 سے 9.5 بلین لیٹر ایندھن جلتا ہے۔ اور یہ صرف ٹرانس پورٹ سیکٹر میں استعمال ہونے والے ایندھن کا 33 فی صد حصہ ہے، صنعتوں میں 44 فی صد اور گھروں میں 22فی صد ایندھن خرچ ہوتا ہے، تو اگر ان سب کو جمع کیا جائے، تو روزانہ 23.6 بلین لیٹر اور سالانہ 8.6ٹریلین لیٹر ایندھن استعمال ہورہا ہے۔ یاللعجب!کیا کثرت ہے۔
اس کیمیائی مادے کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ جو ربِ کائنات نے زمین کےسینے میں چُھپا رکھا ہے، جو صدیوں بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، بلکہ ہر روز اس کے نئے ذخائر دریافت ہو رہے ہیں، جو زندگی کے پہیّےکو رواں رکھے ہوئے ہیں، لیکن … اس ایندھن کے بے پناہ استعمال کے اثرات بھی کم نہیں، کیوں کہ اس کےنتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج زمین کے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، 8.6 ٹریلین لیٹر ایندھن کےاستعمال سے سالانہ 21.5 ٹریلین کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہورہی ہے، جس کےنتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت اب تک 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چُکا ہے اور ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ اگر یہ درجۂ حرارت 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا، تو ایسی ماحولیاتی تبدیلیاں رُونما ہوں گی کہ جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔
یاد رہے، بے وقت کی بارشیں، شدید طوفان، قطب شمالی میں برف کا پگھلاؤ، سمندر کی سطح کا بلند ہونا اور ساحلی علاقوں کو درپیش خطرات ماحولیاتی تبدیلیوں ہی کا نتیجہ ہیں۔ بدقسمتی سے اِن تباہ کاریوں کا سب سے زیادہ شکار وہ غریب ممالک بن رہے ہیں کہ جن کا کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے دُنیا بھر میں گرین انرجی پر تیزی سے کام ہورہا ہے اور سورج، ہوا، پانی اور دیگر ذرائع سے توانائی کے حصول کے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں، جن میں مصنوعی ذہانت بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔
نتیجتاً، آئندہ برسوں میں تیل پرانحصار کم ہوتا جائے گا، بجلی سے چلنے والی گاڑیاں عام ہوں گی اور لیتھیم بیٹریز اور دیگر ٹیکنالوجیز کا استعمال بڑھے گا۔ نیز، فضائی اور بحری سفر کے ذرائع میں بائیو فیول، ہائیڈروجن اور امونیا جیسے متبادل ذرائع اختیار کیے جائیں گے۔ صنعتیں بھی بجلی اور ہائیڈروجن پر منتقل ہو جائیں گی۔
پلاسٹک کی جگہ بائیومٹیریلز کا استعمال بڑھے گا اور ملازمتوں کا رُخ تیل اور روایتی صنعتوں کی بجائے کلین انرجی، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی طرف ہو جائے گا۔ اِسی طرح گھروں، صنعتوں اور گاڑیوں کا زیادہ ترانحصار بجلی اور سولر انرجی پر ہوگا، جس کے نتیجے میں فضا زیادہ شفّاف اور صحت مند ہوجائے گی۔ فضائی آلودگی میں کمی سے دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں واضح کمی آئے گی اور دُنیا بھر میں انسانی صحت کا معیار بہتر ہوگا۔
اب تصوّر کریں کہ50 سال بعد انسان کا طرزِ زندگی کیسا ہوگا۔ بستر کی ہلکی سی جنبش سے اُس کی آنکھ کُھل جائے گی۔ کھڑکیوں کے شیشے سورج کی روشنی سے ہم آہنگ ہوکررنگ بدل لیں گے، جب کہ گھرکا درجۂ حرارت پہلے ہی موسم کے مطابق ایڈجسٹ ہوچُکاہوگا۔
غسل کے بعد مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ من پسند ناشتا میز پر موجود ہے۔ ناشتے کے بعد الیکٹرک کار میں بیٹھ کراے آئی کنٹرولڈ ٹریفک سسٹم کے ذریعے گاڑیوں کے ہجوم اور آلودگی سے پاک سڑک پر ڈرائیونگ کیے بغیر سُکون سے دفتر پہنچ گئے۔
لنچ بریک میں بائیو پیکڈ کھانے سے لُطف اندوز ہوئے اور ماحول دوست کھانے کے انتخاب پر کاربن پوائنٹس بھی ملے۔ گھر واپسی پر اسمارٹ دیواریں مُوڈ کے مطابق رنگ بدلنے لگیں۔ اے آئی پینل پر بجلی کے استعمال او رپیداوار کی رپورٹ دیکھی۔ باغ کے تمام پودے صحت مند، ہوا آلودگی سے پاک ہے اور اسی ماحول میں زندگی کے روزو شب بسر ہو رہے ہیں۔
موبائل فون کی بیل بجتی ہے، تو ووکل کمانڈ سے کال ریسیو کی جاتی ہے۔ سامنے موجود دیوار روشن ہوجاتی ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارنے والے بیٹے سے ملنے کا پروگرام بنتا ہے۔ بیوی بازار گئی ہوئی ہے۔ گرچہ اب آن لائن شاپنگ کا دَور ہے، مگر بیوی کو بازار جا کرشاپنگ کرنا ہی پسند ہے۔ رات کا کھانا میاں بیوی ایک ساتھ کھاتے ہیں اور سونے سے پہلے اے آئی پینل پراپنی صحت کا جائزہ لیتے ہیں، تو ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی رپورٹ ملتی ہے۔
یہ ہے کثرت،لیکن دوسری طرف قلّت اور کمی بھی ہے۔ کمی ہے محبّت کی، خلوص کی، رواداری کی، بقائے باہمی کی اور خُوب صُورت اقدار و روایات کی۔ اور یہ کمی انسان کو درندہ بنارہی ہے۔ رشتوں کا تقدّس و احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ بیٹا، باپ کے سامنے اور چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے ۔ خاندانی و سماجی رشتے، قومی و بین الاقوامی تعلقات سب زوال پذیر ہیں۔ اور…کثرت و قلّت کے اِسی تضاد نے انسانیت کو راحت و تکلیف کے ایسے گورکھ دھندے میں الجھا کے رکھ دیا ہے کہ جس سےنجات کی کوئی آسان راہ دکھائی نہیں دے رہی اور اِس کا سارا بوجھ غریب، کم زورطبقے پر پڑرہا ہے، جب کہ مفادات کا مافیا بدستور بین الاقوامی سطح پرمنظّم و متحد ہے، اس رجحان کو کیسے روکا جائے؟
خواہشات، مفادات کی کثرت کےآگے بند کیسے باندھا جائے، اقدار کی ٹوٹ پھوٹ کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ اِن تمام سوالات کا جواب صرف اور صرف انسان کے پاس ہے کہ اگر وہ انصاف و مساوات کے اصول اپنا لے، تو ممکن ہے، اس اہم ذمّےداری سے کسی حد تک عہدہ برا ہو سکے۔ قصّہ مختصر، آج وقت کی نظریں انسان ہی پر لگی ہوئی ہیں۔