’’ہائپرایکٹیویٹی‘‘ ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے، جس میں بچّے یا بالغ افراد غیر معمولی طور پر متحرّک اور مضطرب ہوتے ہیں۔ گرچہ ایسے افراد مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، لیکن کسی ایک کام پر توجّہ مرکوز کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور عام طور پر اِن کی سرگرمیاں بے ترتیب اور بے ہنگم ہوتی ہیں۔
یہ رویّہ یا عادت خاص طورپربچّوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور وہ ایسے مواقع پر بھی، ضرورت سے زیادہ شور مچاتے، دوڑتے اور والدین کو تنگ کرتے ہیں کہ جب اُنہیں پُرسکون رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائپر ایکٹیویٹی عموماً توجّہ کی کمی کے عارضے، ’’اے ڈی ایچ ڈی‘‘ کے سبب ہوتی ہے، لیکن یہ عادت ذہنی تناؤ، نیند کی کمی یا غذائی عادات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، جب کہ عصرِحاضر میں بالخصوص بچّوں کے غیرمعمولی تحرّک کا اہم سبب موبائل فون کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔
اِن دنوں بچّوں کا ہائپرایکٹیو ہونا اور موبائل فون کی لَت ایک اہم سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف بچّوں کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہورہی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت پربھی منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیں۔ لہٰذا، والدین اور اساتذہ کے لیےضروری ہےکہ وہ اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے بچّوں کو دُرست سمت پر گام زن کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کریں۔
واضح رہے، بچّوں کی غیرمعمولی توانائی کو مثبت کاموں کےلیےاستعمال کرنا بےحدضروری ہے، لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کو کُھلی فضا میں لے کر جائیں اور اُنہیں کرکٹ، فُٹ بال یا تیراکی سمیت دیگر کھیل کھیلنے کی ترغیب دیں۔ ان صحت مندانہ سرگرمیوں سے نہ صرف بچّوں میں موجود توانائی کا مثبت استعمال ہوگا، بلکہ اُن کے رویّوں میں بھی بہتری آئے گی۔ علاوہ ازیں، بچّوں کی توجّہ ڈرائنگ اور پینٹنگ کی جانب مبذول کروائیں کہ اس کے نتیجے میں بچّوں کی تخلیقی صلاحیتوں اورذہنی ارتکاز میں اضافہ ہوتا ہے۔
موبائل فون کا بےجا اور بےدریغ استعمال بچّوں کے لیے ازحد نقصان دہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کے ’’اسکرین ٹائم‘‘ کے لیے ایک وقت مقرّر کریں۔ مثال کے طور پر، اُنہیں صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں یا کارآمد مواد تلاش کرنے کے لیے موبائل فون استعمال کرنے کی محدود اجازت دیں اور بچّوں کو موبائل فون کے متبادل ذرایع فراہم کریں، جیسا کہ پزل گیمز، کُتب یا لیگو وغیرہ، جو نہ صرف دل چسپ، بلکہ بچّوں کےذہنی ارتقا کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں۔
علاوہ ازیں، فیملی کے ساتھ وقت گزارنا بچّوں کی جذباتی تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے، لہٰذا روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ بچّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر ضرور گفت گو کریں اور اِس دوران بچّوں کو سیرت النبیﷺ، انبیا کرامؑ اورصحابہ کرامؓ کی زندگی کے مختلف واقعات سُنائیں۔
اُن کے ساتھ مختلف کھیل کھیلیں۔ اس سے نہ صرف بچّوں کو خوشی محسوس ہوگی، بلکہ اُن کی موبائل فون کے استعمال کی عادت میں بھی کمی واقع ہوگی۔ نیز، کھانا کھاتے وقت بچّوں کو موبائل فون کے استعمال سے سختی سے منع کریں، تاکہ فیملی بانڈنگ کا وقت متاثر نہ ہو۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کی نیند کا خاص خیال رکھیں۔ مقرّرہ وقت پر سونے اور جاگنے کی عادت اُنہیں ہائپرایکٹیو ہونے سے بچاتی ہے، جب کہ نیند کی کمی اکثر بچّوں کے رویّے پر منفی اثرات مرتّب کرتی ہے۔ اِسی طرح منفی غذائی عادات بھی بچّوں کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ چینی سے تیار کردہ اشیا اور جنک فوڈ کی بجائے بچّوں کو پَھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا فراہم کریں، تاکہ اُن کے جسم میں توانائی کی سطح متوازن رہے۔
اگر مذکورہ بالا تمام ترکوششوں کے باوجود بچّے کے رویّے میں کوئی تبدیلی نہ آئے، تو کسی ماہرِ نفسیات یا چائلڈ سائیکالوجسٹ سے مشورہ کریں۔ واضح رہے، بچّوں کی اچّھی تربیت کے لیے والدین کو مستقل مزاجی اور محبّت سے بھرپور رویّہ اپنانا ہوگا، کیوں کہ بچّوں کی بگڑی ہوئی عادات کو فوری طور پر تبدیل کرنا ممکن نہیں، لیکن صبر، شفقت اور مثبت اندازِ فکر سے اُن کے طرزِعمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ تدابیر نہ صرف بچّوں کی ہائپرایکٹیویٹی کو قابو میں رکھنے میں مدد فراہم کریں گی، بلکہ اُن کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔ یاد رہے، والدین اور اساتذہ کی توجّہ اور مستقل محنت ہی بچّوں کی شخصیات نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔