انسان اپنے حالات و واقعات، تجربات اور مشاہدات کی پیداوار ہوتا ہے۔ جب کوئی انسان اپنے حالات و واقعات اور تجربات کے زیرِاثر پرورش پا کر کسی مملکت یا ادارے کا سربراہ بنتا ہے تو اس کی شخصیت اسکے فیصلوں اور انکے نتائج میں صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ژی جن پنگ، ولادیمیر پیوٹن، نیتن یاہو اور نریندر مودی انہی حالات و واقعات کی پراڈکٹس ہیں جن سے گزر کر وہ ان عہدوں پر پہنچے ہیں، انکے فیصلوں، طرزِ فکر اور پالیسیوں میں انکی شخصیات واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس وقت تین مسلمہ عالمی قوتیں چین امریکہ اور روس، دنیا بھر میں کہیں بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے واحد سپرپاور کے طور پر دنیا کو ہانک رہا تھا۔ لیکن چین خاموشی اور مستقل مزاجی سے اپنی معاشی استعداد کار کو بڑھاتا ہوا آج امریکہ کو ہر شعبہ میں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ امریکہ کے تھانیدارانہ رویے کے برعکس چین اور روس نے باہمی ترقی کے نئے عالمی ماڈل’’تعاون کے ذریعے ہم آہنگی کے فروغ‘‘ کو متعارف کروا کر روایتی سیاسی رویوں اور طاقت کے بل پر حکمرانی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تجارتی امکانات کو فروغ دیا ہے۔ چین نے اپنے ہم خیال ممالک سے مسابقتی رویہ اپنانے کی بجائے انہیں ترقی کے سفر میں اپنا شریکِ کار بنا کر انکی اصولی حمایت اور ہمدردیاں حاصل کی ہیں اور اس طرح اس نے اپنے تجارتی ماڈل کو افریقہ تک وسعت دیدی ہے۔ چین دنیا بھر میں اپنے ہم خیالوں کو اکٹھا کر کے مشترکہ ترقی کے ماڈل پر کام کر رہاہے۔ دوسری طرف امریکہ مسلسل زوال کا شکار ہے لیکن ہٹ دھرمی کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس کا خود غرضانہ اور خود سر رویہ جوں کا توں قائم ہے۔ترقی پذیر اور دیگرچھوٹے ممالک کیساتھ ہتک آمیز اور جارحانہ برتائو نے عالمی سطح پر اسے پذیرائی سے محروم کیا ہے۔ جبکہ چین باہمی احترام ، ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی، مشاورت اورباہمی تجارت کے فروغ کے ذریعے اپنی حیثیت کو مضبوط سے مضبوط ترکر رہاہے۔ پاکستان چین کا اہم ترین اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ بھارت نے خطے میں نہ صرف پاکستان کیساتھ ہمیشہ سے معاندانہ رویہ اپنائے رکھا بلکہ ابھرتی ہوئی عالمی سپر پاور چین سے بھی سینگ پھنسائے رکھے۔چین کسی طور بھی بھارت کو اپنا سیاسی معاشی یا عسکری حریف نہیں سمجھتا۔ خطے میں اخلاقی تنہائی کا شکار بھارت نیپال ، پاکستان ، سری لنکا، ایران اور دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کر کے شرمندگی اٹھاتا رہاہے۔ 2014ء میں نیپال میں ہونیوالے سارک اجلاس میں نیپال، سری لنکا اور پاکستان نے سارک ممالک کے مبصر چین کو سارک کامستقل رکن بنانے کی سفارش کی لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے چین کو سارک کا مستقل ممبر نہیں بننے دیا ۔ خود بھارت بھی 2016ءمیں اوڑی حملوں کو جواز بنا کر سارک سے کنارہ کش ہو گیا۔بعد ازاں شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت بھارت کی مجبوری بن گئی۔امریکہ کے قائم کیے گئے دس ممالک کے اتحاد آسیان، جسے چین پر نظر رکھنے کیلئے قائم کیا گیا، نے بھی چین کے اثر و نفوذ کے مقابل نیوٹرل رہنے کو اولیت دیتے ہوئے امریکی عزائم کی پروا نہیں کی۔ جبکہ چین نے آسیان ممالک کو بھی معاشی ترقی میں شریک کرنے کیلئے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی پیش کش کر کے اپنی طرف جھکائو پر مجبور کر دیا۔ عالمی سازشوں سے بے نیاز چین معاشی محاذ پر سپر پاور کاا سٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے دنیا بھر کی پیداواری صلاحیتوں کا 31فیصد چین کو حاصل ہے، آج چین گوبل سپلائی چین کا مرکزتسلیم کیا جا چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے چین پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی تو چین نے جوابی طور پر امریکہ کو معدنی وسائل اور خام مال کی فراہمی سے صاف انکار کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ آج کے موجودہ دور میں اکانومی ، ملٹری اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سبقت ،دفاعی استحکام اور سالمیت کی ضمانت ہے۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے بڑھتے رجحانات نے روایتی جنگی حکمت عملیوں کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔ آج کسی بھی خطے میں بیٹھ کر دنیا بھر پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر کے چار سب سے بڑے سیٹلائٹ سسٹمز میں چینی سیٹلائٹ سسٹم بیدو کو دنیا کا سب سے بہترین سیٹلائٹ سسٹم تسلیم کیا جاتا ہے۔ چین اہم اتحادیوں خصوصاً پاکستان کیساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے چین کی پاکستان کیلئے غیر مشروط حمایت اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ بھارتکیلئے دوہرے دردِ سر کے مترادف ہے۔جبکہ پاکستان اہم ترین جغرافیائی پوزیشن کے باعث امریکہ کیلئے بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ 1971ءمیں پاکستان نے چو این لائی اور ہنری کسنجر کو باہم اکٹھا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔موجودہ حالات میں چین اور امریکہ جیسے متحارب ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں پاکستان ایک بارپھر اہم ترین کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔موجودہ عالمی تناظر میں یہی کردار پاکستان کو ایک بار پھر عالمی اہمیت کا حامل بنا سکتا ہے۔زوال پذیر عالمی قوت امریکہ اور ابھرتی عالمی قوت چین کے طرزعمل اور ترجیحات میںبنیادی اور واضح فرق پایا جاتا ہے ۔ چین کا مشترکہ ترقی کا ماڈل دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کررہاہے۔ ان حالات میں بھارت اور امریکہ کو بھی چین کے معاشی ماڈل سےرہنمائی لیتے ہوئے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ عالمی امن کو بھی دیر پا اور مستحکم مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔
(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)