اس تحریر کو سپردِ قرطاس کرتے ہوئے خیال آیا کہ 14 ؍جولائی کو صدر ممنون حسین کی چوتھی برسی بھی تھی ۔ خدا غريق رحمت فرمائے جب گورنر بنے ، جب صدر بنے تو مزاج میں کوئی تصنع نہ آیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں مشرف دور میں گرفتار ہوا تو اولين جن صاحبان کی فون کالیں آئیں ان میں ممنون حسین سر فہرست تھے۔اس کے بعد عرض ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قدم اٹھا لیا جائے تو ایک مخصوص رویہ ضرور دیکھنے کو ملتا ہے کہ بس اس میں کیڑے نکالنے ہیں ۔ پاکستان نے جب حال ہی میں انڈیا کی جارحیت کے بعد فتح حاصل کی تو پاکستان کی دفاعی طاقت اور اسکی اہمیت کا دنیا کو زیادہ طور پر احساس ہونے لگا اور وطن عزیز کو یہ موقع نصیب ہوا کہ اس فتح کے ثمرات کو سفارت کاری کی دنیا میں بھی سمیٹا جائے ، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ امریکہ اور وائٹ ہاؤس میں ملاقات اس سلسلے کی ہی کڑیاں تھیں مگر یار لوگوں نے اس کو ایسا رنگ دینے کی کوشش شروع کردی کہ جیسے اس کے بعد تو یہ ثابت ہو گیا ہو کہ آئینی حکومت کو ان معاملات میں علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہی یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ جیسے قصر صدارت کا مکین بدلنے والا ہے ۔ حالاں کہ یہ ایک لکھی پڑھی حقیقت ہے کہ کسی ملک سے دوسرے ملک کے تذویراتی تعلقات میں دفاعی مراسم کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور اس سے متعلقہ امور پر گفتگو کرنے کیلئے مختلف ممالک کے فوجی افسران دورے کرتے ہی رہتے ہیں پھر اگر اس میں کوئی ایسی رمز پائی جاتی جو کہ جمہوریت کی روح کے منافی ہوتی تو ایسی صورتحال میں جب 1973 کا آئین اس وقت کے شہ دماغ مرتب کر رہے تھے تو وہ اس میں اس نوعیت کی سفارت کاری پر پابندی عائد کر دیتے مگر ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ کوئی چشم تصور میں بھی نہیں لا سکتا تھا کہ یہ اعتراض بھی قائم کیا جا سکتا ہے ۔ دنیا بھر میں اب سفارت کاری کی موجودہ بنیاد انوویٹیو اینڈ پراگمیٹک سفارت کاری پر رکھی جاتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے وسائل اور ان کے استعمال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سفارت کاری کے میدان میں اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان معاشی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ اس کو اپنی طاقت بناتے ہوئے آگے بڑھ سکے ، علاقائی معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے وطن عزیز اقدامات کر سکتا تھا جو 2015 ءمیں سی پیک کی صورت میں کر دیئےگئے تھے ۔ اب اس وقت دفاع ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہمارے آگے بڑھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور ہمیں اس کو مکمل طور پر استعمال کرنا چاہئے ۔ دنیا بھر کے مسلمہ جمہوری ممالک کے فوجی افسران اس نوعیت کی سفارت کاری کا حصہ ہوتے ہیں اور معاملات کو طے کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر امریکی سینٹ کام کے چیئر مین اور دیگر فوجی افسران وطن عزیز بھی آتے رہے ہیں اور آتے رہتے ہیں اب ان کی آمد کی وجہ سے امریکی جمہوریت کو کوئی خطرہ یا غیر مؤثر ہونے کا احساس نہیں ہوتا ہے کیوں کہ یہ ان کے آئین کے عین مطابق ہے بالکل اسی طرح ہمیں بھی اس سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ ہمارا آئین بھی اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتا ۔ امریکہ کے یورپ سے دیرینہ تعلقات ہیں اور ان تعلقات میں اکثر جو موضوع بحث ہوتا ہے اور اب ٹرمپ کے دور میں تو بہت ہی موضوع بحث رہنے لگا ہے وہ نیٹو کا فوجی اتحاد ہے اور اس اتحاد کے ذریعے ہی یہ تمام ممالک یورپ اور دنیا بھر میں مفادات حاصل کرتے پھرتے ہیں ، فوجی اتحاد ہے تو امور میں فوجی مشورے کے بغیر تو کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ ابھی حال ہی میں پینٹاگون نے ریئر ارتھ منرل کے کیلی فورنیا میں شیئرز خرید لئے ہیں اب اس خبر کو ذرا امریکہ کی جانب سے دنیا بھر میں منرلز ، مائننگ میں دل چسپی کے ساتھ ملا کر پڑھئے صاف نظر آئے گا کہ اس اقدام کا مطلب صرف کاروباری سرگرمی نہیں ہے بلکہ اس کو امریکی دفاع کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے ۔ بالکل اسی طرح سے یورپی یونین کا یورپی یونین سیکورٹی اینڈ ڈیفنس انیشی ایٹو ان دی گلف آف گنی ہے ، انڈیا کی مثال دی جا سکتی ہے اس کی ملابار کی بحری مشقیں دفاعی سفارت کاری کی واضح مثال ہیں کہ جن میں دیگر ممالک میں امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہوتے ہیں ۔
پاکستان کو اس طرف مزید قدم بڑھانے چاہئیں ، اس وقت چین ، ترکی ، آذر بائیجان سے ہمارے اس نوعیت کے گہرے تعلقات ہیں ، 1980ءکی دہائی سے ہم جی سی سی ممالک میں موجود ہیں ، ایران اس حوالے سے ہمارے ساتھ تعلقات کی مزید مضبوطی چاہتا ہے ، انڈونیشیا سے لے کر شمالی افریقہ تک ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ، مجھے قطر کے ایک سفیر نے چند سال قبل کہا تھا کہ پاکستان مسلم دنیا کی سپر پاور ہے مگر پاکستان اپنے اس پوٹینشل کو استعمال نہیں کرپاتا ، اب وقت ہے کہ اس پوٹینشل کو استعمال کیا جائے اور اس کا استعمال آئین ، جمہوریت کی مکمل تابعداری میںرہتے ہوئے ہی ممکن ہے ۔