صدر مملکت اور وزیراعظم کی باہمی ملاقات نہ صرف حالات سے بالمشافہ آگہی ، مشاورت اور پارلیمانی جمہوری نظام کی ضرورت ہے بلکہ مئی کے مہینے میں پاکستان پر مسلط کی گئی فل اسکیل جنگ میں حملہ آور بھارت کی بدترین ہزیمت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی ثالثی میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد کی صورت حال کا تقاضا بھی ۔ یہ بات بہرصورت ملحوظ رہنی چاہئے کہ ایک طرف بھارت سے آپریٹ کی جانے والی سات ہزار سے زیادہ جعلی ویب سائٹس کا پاکستان دشمن پروپیگنڈہ اور افواہ سازی ہے دوسری جانب فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کی صورت میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس سرگرم عمل ہیں جن کے خاتمے تک ہر دم چوکنا رہنا ہے۔ پاکستان کی فوج نے مئی کی چار روزہ جنگ میں ثابت کیا کہ وہ دنیا کی بہترین فوجوں میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے حصہ کے طور پر کام کرکے بھی اس نے اپنا موثر کردار تسلیم کرایا جبکہ وطن عزیز میں قدرتی آفات سمیت ہر ضرورت کے وقت عساکر پاکستان پیش پیش ہیں۔ معیشت کی ابتر صورتحال سے نمٹنے کی کاوشوں میں بھی پاکستانی فوج حکومت کا دست و بازو بنی رہی اور کئی اہم معاملات میں اس کی معاونت ثمر آور ثابت ہوئی۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف کا باہمی احترام و تعاون ملک کو مشکلات سے نکال کر بحالی، ترقی، خوشحالی کی سمت گامزن کرنے کا ذریعہ اور آئینی تقاضوں کا حصہ ہے۔ اندرون ملک سیاسی معاشی سیکورٹی صورتحال کے حوالے سے صدر مملکت اور وزیراعظم کی مشاورت کی اپنی اہمیت ہے۔ منگل کے روز کی ملاقات کو مبصرین اس زائویے سےدیکھ رہے ہیں کہ 5اگست کو پاکستان تحریک انصاف کا احتجاجی مارچ متوقع ہے، خیبرپختونخوا میں سینٹ کی 11نشستوں پر انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے اور کے پی صوبے میں پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت میں تبدیلی کے امکانات محسوس کئے جارہے ہیں۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کے اثرات سے متعلق تمام پہلو مدنظر رہنے چاہئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی صدر مملکت سے اس ملاقات میں کابینہ کے سینئر وزراء بھی شامل تھے۔ دوران گفتگو ملک کی سیاسی، معاشی اور سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کے اقدامات پر بھی بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم نے معیشت کی بہتری کیلئے حکومتی اقدامات سے صدر مملکت کو آگاہ کیا۔ ایک ذریعے کے بموجب اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے تقاضے بہرصورت ملحوظ رہیں گے۔یاد رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا کیلئے سینٹ الیکشن کی تاریخ 21جولائی مقرر کی ہے۔ گیارہ نشستوں پر مشتمل اس الیکشن میں سات نشستیں عام اور دو دو نشستیں علماء اور ٹیکنوکریٹس کیلئے مختص ہیں۔ ان نشستوں پر انتخاب کا نتیجہ اس امر پر منحصر ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور جے یو آئی (ف) کے ممبران کے ووٹ کس کو پڑتے ہیں۔ اگر اپوزیشن متحد رہی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کی اور جے یو آئی (ف) کی حمایت بھی حاصل رہی تو حکمران پارٹی صرف ایک نشست سے جیتے گی۔ اگر پی ٹی آئی کے بعض افراد نے وفاداری تبدیل کی اور جے یو آئی (ف) کا حکمران اتحاد سے سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو حکومتی اتحاد پانچ نشستیں حاصل کرکے ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت کا حامل بن جائے گا۔ 96ارکان پر مشتمل ایوان بالا میں اس وقت 54نشستیں حکمران اتحاد کو حاصل ہیں۔ یہ تعداد دو تہائی اکثریت (یعنی 64سے دس کم ہے) جہاں تک وزیراعظم اور صدر مملکت کی ملاقات کی اہمیت کا تعلق ہےاس کے موضوعات وسیع ہیں ، اس نوع کی ملاقاتوں کا سلسلہ اور مشاورت کا عمل جاری رہنا چاہئے۔