گزشتہ دنوں مجھے فرانس کے قومی دن کی باوقارتقریب میں شرکت کیلئے مدعو کیا گیا، اس موقع پر فرانس کے سفارتی عملے کی جانب سے اپنے وطن کے تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے کاوشیں قابلِ تعریف تھیں، تقریب کی خاص بات پاکستان کے اعلیٰ حکومتی عہدے داران سمیت مختلف ممالک کے ڈپلومیٹس کی بھرپور موجودگی بھی تھیں۔ہر سال دنیاکے مختلف ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کی جانب سے بھی یوم ِ پاکستان، جشن پاکستان اور دیگر قومی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، تاہم ہماری تقریبات اور دیگر ممالک کی قومی تقریبات میں واضح فرق ترجیحات کا نظر آتا ہے، دوسرے ممالک اپنے قومی دن کو عالمی برادری کی نظر میں اپنا امیج بہتر کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ اس اہم موقع پر اپنا کلچر پروموٹ کرتے ہیں،سفارتی سطح پر دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرتے ہیں، پبلک ڈپلومیسی کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جبکہ ہمارے سفارتخانے کیا کرتے ہیں؟ اسکی ایک جھلک اگلے ماہ چودہ اگست کو ملاحظہ کی جا سکے گی جب پاکستان کا 78واں جشن آزادی منانے کی تقریب میں قومی ترانے کے بعدقومی پرچم لہرایا جائے گا، فوٹو شوٹ کے بعد ایک عدد گھِسی پٹِی پریس ریلیز کا اجراء کردیا جائے گا، متعدد پاکستانی سفارتخانوں کی ویب سائٹ پر پاکستان کے اس اہم ترین قومی دن کی تصاویر بھی بروقت پوسٹ نہیں ہوسکیں گی، بدقسمتی سے ہماری طرف سے غفلت کا یہ وہ شرمناک مظاہرہ ہے جو ہمیں اقوامِ عالم کی نظروں میں روزبرروز گِراتا جارہا ہے۔ مجھے فرانس کے قومی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب کے دوران مختلف سفارتکاروں کے ساتھ اظہارِ خیال کا بھی موقع ملا، مجھے فخر ہے کہ عالمی سفارتکاروں کے نزدیک میری پہچان ایک ایسے محب وطن پاکستانی کی بن چکی ہے جو اپنے پیارے وطن کو ترقی و خوشحالی کی بلندیوں پر لے جانے کیلئے عملی وژن رکھتا ہے، بالخصوص پاکستان میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے میری جہدِ مسلسل ڈپلومیٹس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، متعدد سفارتکاروں نے مجھ سے پاکستان کو بدھسٹ اکثریتی ممالک سے بذریعہ گندھارا کوریڈور منسلک کرنے کے مجوزہ منصوبے سے متعلق بھی استسفار کیا۔انہوں نے میرے اس موقف سے اتفاق کیا کہ بُدھسٹ ٹورازم دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے، یہ صرف کسی ایک مخصوص مذہبی فرقے کی عقیدت کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ روحانیت، ثقافت، تاریخ اور خودشناسی کا عالمی رحجان بن چکی ہے،لاکھوں سیاح ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں موجود بُدھسٹ مذہبی مقامات کی یاترا کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں پچاس کروڑ سے زائد بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں جنکی اکثریت پاکستان کے دوست ممالک بشمول چین، نیپال،جاپان، تھائی لینڈ، سری لنکا، ویتنام، کوریا، میانمار اور کمبوڈیا میں بستی ہے، ان ممالک سے ہر سال لاکھوں یاتری روحانی سکون کی خاطر گوتم بُدھا سے منسوب مذہبی مقامات کا رُخ کرتے ہیں، یہ سیاح بدھ مت کی قدیم تاریخ، آثارِ قدیمہ اور پرانے زمانے کے قائم کردہ مذہبی مقامات کی یاترا میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ مذہبی سیاحت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکومتی سطح پر مختلف اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں جن میں بھارت اور نیپال کے اشتراک سے بُدھسٹ سرکٹ نامی پراجیکٹ سرفہرست ہے، ورلڈ بینک کے اشتراک سے مذکورہ منصوبہ تیزی سے عالمی سیاحوں میں مقبول ہورہا ہے، گوتم بُدھا کی جائے پیدائش کے ملک نیپال نے لمبنی ماسٹر پلان کے تحت بین الاقوامی تعاون سے ترقیاتی منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ تھائی لینڈ، جاپان، کوریا، اور سری لنکا نےزمانہ قدیم کی تعمیرکردہ خانقاہی رہائش گاہوں کوعالمی سیاحوں کیلئے کھول دیا ہے، چین نےاکیسویں صدی کے سب سے بڑے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بدھ مت سیاحت کو ریاستی سطح پر سفارتی ترجیحات میں شامل کرلیا ہے۔دنیا کے مختلف ممالک میں بُدھاپورنیما، کاتھینا تہوار سمیت مختلف عالمی بُدھٹ کانفرنسزو تقریبات کا انعقاد سالانہ بنیادوں پر کرایا جارہا ہے جو نہ صرف لاکھوں مقامی و عالمی یاتریوں اور مندوبین کو اپنی جانب مائل کرتے ہیں بلکہ مقامی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں، مشرق بعید کے کئی ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات کی مضبوط بنیادیں قدرِ مشترک بدھ مت پر استوارہیں۔عالمی سطح پر بُدھسٹ ٹورازم کے فروغ میں سوشل میڈیا بھی اہم کردارادا کررہا ہے ، بدھ مت کے مذہبی مقامات کی آگاہی کیلئے مختلف نوعیت کےورچوئل ٹورز، یوٹیوب ویڈیوزاور موبائل ایپس انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جبکہ بھارت، جاپان، نیپال، کوریا، تھائی لینڈ اور سری لنکا کی حکومتوں نے بدھسٹ ٹورازم ویب پورٹل بھی لانچ کر رکھے ہیں۔ تاہم انترنیشنل بدھسٹ ٹورازم میں جو سب سے بڑی کمی محسوس کی جارہی ہے وہ موجودہ پاکستان کے عظیم والشان گندھارا ورثے تک عدم رسائی ہے، ہمارے پیارے ملک کا قدیمی گندھارا دنیا بھر کے بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے سب سے زیادہ روحانی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا حامل ہے،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں کے پرے آباد ٹیکسلا آج سے لگ بھگ اڑھائی ہزار سال قبل تکشاشیلہ کہلاتا تھا جو نہ صرف بدھ مت کی تہذیب و تمدن کا گہوارا تھا بلکہ منفرد بدھسٹ فن، فلسفہ اور تعلیم و تربیت کا مرکز بھی تھا،آج بھی بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے پاکستان وہ مقدس دھرتی ہے جہاں سے روانہ ہونے والے یاتریوں نےدوردراز کے خطوں میں بسنے والوں کو بُدھا کا امن پسندانہ پیغام پہنچایا، گندھارا کے دور میں پہلی مرتبہ گوتم بُدھا کی مجسمہ سازی کی گئی، گندھارا آرٹ کے نام سے عالمی شہرت یافتہ فن کے چرچے آج بھی ہر طرف ہیں ۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے قائم پراسرار اسٹوپاؤں میں وہ کشش ہے جو نہ صرف بدھ مت کے پیروکاروں کواپنی جانب کھینچتی ہے بلکہ ہر اس شخص کو متوجہ کرتی ہے جو سکون، تاریخ، مراقبہ، اور سادگی کا متلاشی ہے۔میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں کہ اگر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو پاکستان کے دوست بُدھسٹ اکثریتی ممالک کے دارالحکومتوں سے بذریعہ گندھارا کوریڈور منسلک کردیا جائے تو یہ حکومتی اقدام نہ صرف ہماری اقتصادی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بلکہ بین الاقوامی سطح پر سافٹ امیج اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کر نے کا باعث بن سکتا ہے۔