شاعر: حامد علی سیّد
صفحات: 256، قیمت: 800 روپے
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، گلشنِ اقبال، کراچی۔
فون نمبر: 2830957- 0322
حامد علی سیّد عرصۂ دراز سے شاعری کر رہے ہیں،مشاعروں میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں، لیکن اُنہوں نے کبھی استاد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، جو اُن کی بڑائی ہے، وگرنہ اِس دَور میں تو ہر مقبول ہوجانے والا شاعر خود کو استاد سمجھتا ہے۔ یوں تو حامد علی سیّد تمام اصنافِ سخن پر کامل دسترس رکھتے ہیں، لیکن غزل سے اُنہیں زیادہ رغبت ہے۔ پہلا شعری مجموعہ’’ابھرتا، ڈوبتا سورج‘‘ 1996ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مجموعۂ کلام’’شکستہ آئینہ خانے‘‘ میں منظرِ عام پر آیا۔
تقدیسی ادب پر مشتمل تیسری کتاب’’روشنی کو چراغ لکھا ہے‘‘ 2018ء میں سامنے آئی، جب کہ مجموعۂ حمد ونعت’’ محراب‘‘ 2022ء میں منصۂ شہود پر آیا۔ ہمارے پیشِ نظر اُن کا پانچواں شعری مجموعہ ہے، جس میں 150غزلیں، 50نظمیں، کچھ قطعات اور کچھ متفرق اشعار شامل ہیں۔ یہ کتاب خیام العصر، محسن اعظم ملیح آبادی اور ڈاکٹر مختار حیات صدیقی کے مضامین سے آراستہ ہے۔
حامد علی سیّد غزل کے شاعر ہیں، اِس لیے اُن کی بعض نظموں میں بھی غزلیہ کیفیت دَر آئی ہے۔ وہ چوں کہ جدید عہد میں سانس لے رہے ہیں، تو شاعری میں جدید طرزِ احساس بھی پایا جاتا ہے، لیکن اُنہوں نے ادب کی کلاسیکی روایت سے بھی اپنا رشتہ جوڑا رکھا ہے۔ گرچہ ترقّی پسند نظریات رکھتے ہیں، لیکن شاعری’’نعرہ بازی‘‘ سے بہت دُور ہے۔
اعتذار
جنگ’’ سنڈے میگزین‘‘ کے6 جولائی کے شمارے میں صفحہ’’نئی کتابیں‘‘ پر ایک کتاب’’ خفتگانِ خاکِ گوجرانوالا‘‘ کے مصنّف کے نام کے حوالے سے فاضل تبصرہ نگار غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔
مذکورہ کتاب کے مصنّف، پروفیسر محمّد اسلم(مرحوم) نہیں، بلکہ پروفیسر محمّد اسلم اعوان ہیں، جو بقیدِ حیات ہیں، جب کہ جو دیگر کتب اُن سے سہواً منسوب ہو گئیں، اُن کے مصنّف پروفیسر محمّد اسلم (مرحوم) اور ڈاکٹر منیر احمد سلیچ ہیں۔