• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: حسین صمدانی

صفحات: 404،

قیمت: 1500روپے

ناشر: سلسلۂ لوح وقلم

حسین صمدانی ایک ترقّی پسند ادیب کی حیثیت سے ایک نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ ادب، آرٹ اور شاعری ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔اُن کی زیرِ نظر کتاب مضامین اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ کتاب چھے ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے باب میں فلسفیانہ، سیاسی اور سماجی مضامین، دوسرے میں فلسفیانہ مضامین، تیسرے میں فن اور شخصیت، چوتھے میں فنِ مصّوری، پانچویں میں فکشن (کہانیاں اور افسانے)، جب کہ چھٹے باب میں صاحبِ کتاب پر لکھی جانے والی تحریریں ہیں۔ 

ہر باب اپنے اندر گہری معنویّت رکھتا ہے۔ ان کی تمام تحریروں سے اُن کی نظریاتی وابستگی جھلکتی ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی، ساحر لدھیانوی، سعادت حسن منٹو، ڈاکٹر مبارک علی،سائیں ولی رام ولبھ، فراق رائے پوری، طاہرہ بیگم، گل شیر خان، بہزاد علی احمدی اور گُل پارہ خان پرتحریر کردہ اُن کے مضامین میں بھی اُن کی نظریاتی فکر کارفرما ہے۔ 

ایک زمانہ وہ تھا، جب ترقّی پسند کمیٹڈ ہوا کرتے تھے، اصولوں پر سودے بازی اُن کی نگاہ میں سب سے بڑا جرم تھا۔اب وہ تحریک رہی اور نہ ترقّی پسند۔اِس فضا میں بھی ڈاکٹر مبارک علی، مسلم شمیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر سیّد جعفر احمد اور حسین صمدانی جیسے دانش وَر ہمارے درمیان موجود ہیں، جو نظریاتی اساس رکھتے ہیں۔ 

کتاب میں حسین صمدانی کی ادبی اور مصوّرانہ جہات پر ممتاز شخصیات کے مضامین بھی شامل ہیں۔ کچھ صفحات انگریزی زبان میں بھی دئیے گئے ہیں، جب کہ کچھ صفحات مصوّری کے نمونوں سے آراستہ ہیں۔ جس کتاب کا پیش لفظ، ممتاز محقّق اور تاریخ دان، ڈاکٹر مبارک علی نے تحریر کیا ہو، اُس کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔

اعتذار

جنگ’’ سنڈے میگزین‘‘ کے6 جولائی کے شمارے میں صفحہ’’نئی کتابیں‘‘ پر ایک کتاب’’ خفتگانِ خاکِ گوجرانوالا‘‘ کے مصنّف کے نام کے حوالے سے فاضل تبصرہ نگار غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔

مذکورہ کتاب کے مصنّف، پروفیسر محمّد اسلم(مرحوم) نہیں، بلکہ پروفیسر محمّد اسلم اعوان ہیں، جو بقیدِ حیات ہیں، جب کہ جو دیگر کتب اُن سے سہواً منسوب ہو گئیں، اُن کے مصنّف پروفیسر محمّد اسلم(مرحوم) اور ڈاکٹر منیر احمد سلیچ ہیں۔