حرا خان، جہلم
کراچی کی بارش میں ایک عجیب سا جادو، سحر اور لُطف ہے۔ جیسے ہی آسمان پر کالی گھٹائیں ڈیرا جماتی ہیں اور بارش کی پہلی بُوند زمین کو چُھوتی ہے، تو پورے شہر کا مزاج ہی بدل جاتا ہے۔ گرمی سے بےحال شہرِ قائد کے باسی ٹھنڈی ہوا اور بارش کے نظاروں سے خُوب لُطف اندوز ہونے کے لیے گھروں کی چھتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ چائے کی دیگچیاں چولھوں پر چڑھ جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر رومانی شاعری، بارش، چائےاور پکوڑے ٹرینڈ کرنے لگتے ہیں۔
پر افسوس کہ جیسے ہی موسم ذرا مہربان ہوتا ہے، بجلی بے وفائی کر جاتی ہے۔ گھروں میں حبس، اندھیرا اور موم بتی کی ٹمٹماتی روشنی باقی رہ جاتی ہے۔ گلیوں میں گٹر اُبلنے لگتے ہیں اور سیوریج کا پانی گھروں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اِس سے بھی زیادہ افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ کرنٹ لگنے کے واقعات میں کئی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوجاتی ہیں۔
کچھ ہی دیر ہونے والی بارش کے نتیجے میں سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ ندی نالے گھبرا کر اپنا منہ کھول دیتے ہیں۔ گاڑیاں پانی میں کشتیوں کی مانند تیرنے لگتی ہیں اور بےچارے موٹر سائیکل سوار جابجا اپنی سواریوں کو دھکیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
بارش کے بعد جل تھل یوں ایک ہوجاتا ہے کہ سڑکوں سے گڑھےتک غائب ہوجاتے ہیں۔ کہاں ڈھلان ہے اور کہاں اُٹھان، کچھ پتا نہیں چلتا۔ گاڑیوں کے ازدحام سے ٹریفک ایسا جام ہوتا ہے کہ گویا پورا شہر سڑکوں پر نکل آیا ہو۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اِن تمام مشکلات کے باوجود کراچی والے ہار نہیں مانتے۔
وہ بغیرچھتریوں کے گھروں سےنکلتے ہیں، جوتے ہاتھوں میں اُٹھا لیتے ہیں اور کیچڑ میں چھپاک چھپاک چلتے ہوئے مُسکراتے چہروں کے ساتھ سیلفیاں لیتے رہتے ہیں۔ اور پھر ایک آواز گونجتی ہے، ’’یار! کیا زبردست موسم ہے…‘‘۔
بِلاشُبہ کراچی والے ہرقسم کے حالات اور موسم میں جینا سیکھ چُکے ہیں۔ اُنھوں نے تکالیف کو معمول بنا کرجینے کاسلیقہ نہ صرف سیکھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھا دیا ہے۔ یہ وہ دل والے ہیں کہ جو پریشانیوں میں بھی قہقہے بکھیرتے ہیں، جن کی دُعاؤں میں شکایت نہیں، شُکر ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے گھروں کی چھتیں ٹپکنے، گلیاں ڈُوبنے اور موبائل نیٹ ورک کے سگنلز غائب ہونے کے باوجود اپنی مسکراہٹ کو آف لائن نہیں ہونے دیتے۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جو ہر سال آزمائشوں سے دوچار ہو کربھی اُمید کی چادر اوڑھے رکھتے ہیں اور بارش کی ہربُوند کو خوشی کابہانہ بنا کر ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’جب بارش آتا ہے، تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے۔‘‘