حمیرا اسلم
دہی بڑوں کا نام سُنتے ہی منہ میں پانی بَھر آتا ہے اور جب یہ سامنے موجود ہوں، تو نہ چاہتے ہوئے بھی بےاختیار ہاتھ اِن کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ گول گول، نرم و ملائم، دہی میں ڈُوبے دہی بڑے بچّوں، بڑوں بلکہ ہر خاص و عام کی مرغُوب ڈِش ہے۔ اِنہیں دہی بھلےاور دہی پُھلکی کے نام سے بھی پُکارا جاتا ہے۔
گرچہ اس مقبول پکوان کے تین الگ الگ نام ہیں، لیکن سبھی یک ساں طور پر ذائقے دار اور چٹ پٹے ہوتے ہیں اور زبان پر رکھتے ہی منہ میں جیسے گُھل سے جاتے ہیں۔ گھر میں بنیں، تو بھی مزے دار، جب کہ بازار کے دہی بڑے تو ہوتے ہی بےحد ذائقے دار ہیں۔
لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ دہی بڑے سب سے پہلے کس نے، کہاں، کیوں اور کیسے بنائے؟ اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کوئی سائنسی ایجاد تو ہے نہیں کہ جس کے وجود میں آنے کا مقصد جاننا ضروری ہو، لیکن بہرحال، ایک دِل چسپ بات یہ ہے کہ دہی بڑے سب سے پہلےایک خاص مقصد کے تحت بنائے گئے تھے۔
واضح رہے، دہی بڑے سب سے پہلے 18ویں صدی عیسوی میں مُغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر کے دربار میں خصوصی طور پر تیارکیے گئے تھے اور اِنہیں تیار کرنے والے شیف یا باورچی کے ہاتھوں میں ایسا ذائقہ تھا کہ انگریز بھی اُس کے ہاتھ کے بنے کھانے شاہی دربار سے منگوا کرکھانا پسند کرتے تھے۔
اُس زمانے میں کھانا پکانے اور پینے کے لیے دریائے جمنا کا پانی استعمال ہوتا تھا۔ تاہم، دریا کاپانی اس قدرآلودہ ہوگیا تھا کہ اُس کے استعمال سے لوگوں کے معدے خراب ہونے لگے تھے اور دیگرعوام کی طرح شاہی دربار کے مکین بھی نظامِ ہاضمہ کے مختلف امراض میں مبتلا ہوچُکے تھے۔ پیٹ کے جُملہ امراض بڑھنے کی وجہ سے شاہی باورچیوں کو حُکم ملا کہ وہ ایسی ڈِشز تیار کریں کہ جن میں پانی کا استعمال نہ ہو۔
یہ حُکم نامہ ملتے ہی شاہی دربار سے وابستہ تمام باورچی سَرجوڑ کربیٹھ گئے اور اُنہوں نے باہمی مشاورت سےپانی کی بجائے دہی استعمال کرتے ہوئے مختلف کھانے تیار کرنا شروع کر دیے، جن کے استعمال سے شاہی دربار کے مکینوں کو لاحق پیٹ کے امراض دُور ہوگئے۔ بعدازاں، انہوں نے بیسن کے پکوڑے تیار کر کے اُنہیں دہی میں شامل کردیا۔
جب یہ انوکھی ڈِش شاہی دسترخوان پر سجائی گئی، تو اُس وقت کے مُغل بادشاہ، بہادر شاہ ظفر نے اس کا نام پُوچھا، تو ایک باورچی نے جواب دیا کہ ’’یہ بڑے ہیں اور بڑے ہی مزے دار ہیں۔‘‘ جب کہ دوسرے باورچی نے کہا کہ ’’دہی میں بڑے ہیں سرکار …‘‘ اور تب سے اس ڈِش کا نام ’’دہی بڑے‘‘ پڑگیا، جسے بعد میں دہی پُھلکی یا دہی بھلے بھی کہا جا نے لگا۔