سیلاب اور بارشیں اگرچہ قدرت کے ہاتھ میں ہیں اور موسمیا تی تبدیلیوں کے سبب بارشیں اور طوفان آتے ہیں جس سے نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے فصلیں تباہ ہونے سے ملکی معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ خاص طور پر یورپی ممالک میں بھی بارشیں ہوتی اور سیلاب آتے ہیں جس سے نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے گھر گر جاتے ہیں مویشی مر جاتے ہیں اور کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جس نے سارا سال محنت کر کے کھیتوں میں فصلیں بوئی ہوتی ہیں سیلاب سے وہ بہہ جاتی ہیں اور چھوٹا کسان مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے ۔پاکستان میں بارشوں کے دو ماہ ہوتے ہیں جس سے پہلے حکومت کو بارشوں اور سیلاب کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوتے ہیں جو وہ ہر سال نہیں کر پاتی،جس سے نقصان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، ملک میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فوج بھی طلب کر لی گئی ہے اور متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے ۔ضلعی سطح پر انتظامیہ کو ہدایات بھی دی گئی ہیں لیکن وہ ہدایات کسی کام کی نہیں کیونکہ جہاں سیلاب متاثرین انتظامیہ کو اطلاع دیتے ہیں انتظامیہ تب پہنچتی ہے جب پانی نقصانات کر چکا ہوتا ہے۔ سیلابی خطرات سے بچنے کیلئے پنجاب بھر میں بارشوں کے باعث 45 دن کے لیے ایمرجنسی نافذ کیگئی ہے ڈیموں، دریاؤں، نہروں، تالابوں اور جھیلوں میں ہر قسم کی تیراکی پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔گلیوں، سڑکوں، کھلی جگہوں یا عوامی مقامات پر بارش کے جمع شدہ پانی میں نہانے پربھی پابندی ہے ۔ڈیموں، دریاؤں، نہروں، تالابوں اور جھیلوںمیں بلااجازت کشتی رانی پر پابندی عائد ہے۔دفعہ 144 کے تحت تمام پابندیوں کا اطلاق 30 اگست تک ہوگا۔سوال یہ ہے کہ این ڈی ایم اے بروقت اقدامات اور منصوبہ بندی کیوںنہیں کرپاتا ۔یہ محکمہ جو قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے قائم کیا گیا ہے ضلعی سطح پر اور ڈویژن کی سطح پر بھی این ڈی ایم اے کی کوئی مثبت اور سیلاب میں مدد گار پالیسی متاثرین کو نظر نہیں آتی ہے۔ لا تعداد جانور سیلاب میں بہہ گئے اور بے شمار جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں، نہ سیلاب ابھی رکا ہے اور نہ ہی بارشیں ابھی رکی ہیں۔ لاہور میں بارش ہوتی ہے تو واسا کہیں نظر نہیں آتا اور ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے نکاس نہیں ہے پھر کیوں نہ ویڈیوز وائرل ہوں عوامی رد عمل تو کسی نہ کسی صورت میں سامنے آنا ہی ہے۔دریااور ندی نالوں میں طغیانی کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج نے کامیاب ہیلی ریسکیو مشن مکمل کرکے سیلا ب میں پھنسے افراد کی زندگیاں بچا لیں۔پنجاب میں حالیہ بارشوں کے باعث مختلف علاقے سیلابی صورتحال سے دوچار ہیں، پاک فوج عوام کی مدد کیلئے ایک بار پھر میدان میں آ گئی ہے۔سیلاب متاثرین کو فوری ریسکیو کرنے کا عمل شروع کردیاگیا ہے،راولپنڈی کے چکری روڈ پر سیلاب میں پھنسے خاندان کی مدد کیلئے پاک فوج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھنسے لوگوں کو بچا لیا،رسول نگر خورد، برہان نالہ، ڈھوک بڈار جہلم میں مون سون بارشوں کے باعث مسلسل طغیانی پر پاک فوج کی ریسکیو ٹیمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ سوئی ہوئی ہے۔این ڈی ایم اے اور صوبوں کے درمیان بہترین کام کیلئے تعاون و منصوبہ بندی ضروری ہے ، اس سال کے تجربے کا جائزہ لیکر صوبوں کیساتھ آئندہ سال کیلئے تیاری کی جانی چاہیے ، وزارت منصوبہ بندی اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے وزراء متعلقہ اداروں کیساتھ مل بیٹھ کر اس حوالے سے مربوط منصوبہ تشکیل دیں تو پھر سیلاب سے بچائو ممکن ہے۔ یہ پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ سیلاب کی شدت بڑھے گی، ایسی صورتحال میں نقصاناتسے حفاظت کیلئے پیشگی اقدامات کرنا ہونگے، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا اس سال مون سون کی مجموعی شدت گز شتہ سال کے مقابلے میں 60 سے 70 فیصد زیادہ ہے، اس سال معمول سے دو سے تین اسپیل کا اضافہ ہوا ہے، ابتک 178 انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے جبکہ 500 زخمی ہیں، اس دفعہ پنجاب کے زیریں علاقے، پنجاب اور اسلام آباد کے ملحقہ علاقے اور آزاد جموں و کشمیر میں اس کی شدت زیادہ ہے، روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کیسا تھ شیئر کیا جا رہا ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ آرمی، ریسکیو 1122، چیف سیکرٹریز کے دفاتر، اریگیشن واٹر اینڈ پاور سے متعلقہ حکام آن بورڈ ہیں، اندیشہ یہ بھی ہے کہ آنیوالے سات دنوں میں پنجاب، آزاد جموں و کشمیر اور کے پی کے شمالی علاقے زیادہ متاثر ہونگے۔ اب تک مون سون کے تین اسپیل آ چکے ہیں جبکہ 21 سے 28 جولائی تک چوتھا، اگست کے پہلے ہفتے پانچواں، دوسرے ہفتے چھٹا اور تیسرے ہفتے میں ساتواں اسپیل متوقع ہے۔ پاکستان کےنشیبی علاقوں میں اس وقت سیلابی پانی کھڑا ہے اور بعض متاثرین نے گھر کی چھتوں پر پناہ لے رکھی ہے۔ خوراک کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور بے گھر خاندانوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کے مسائل بھی اہم ہیں۔ ہر سال سیلاب کی روک و تھام کی منصوبہ بندی کا نا کام ہو جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔