• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں کے جگ مشہور مائی باپ کو کبھی کبھار سیاسی دھچکے لگتےرہتے ہیں۔کافی دھچکےلگ چکے ہیں ان کو ، مگر پھر بھی دھچکا آنے کے بعد وہ ہل جاتے ہیں ۔ اندرون خانہ الٹ پلٹ جاتے ہیں ۔حال ہی میں سیاستدانوں کے مائی باپ نے برکتوں سے بھرپور پرندے ہما سے کہا تھا۔ ’’دیکھو ہما آج کل تم نے زیادہ پھدکنا اور سر سے پھسلنا شروع کردیا ہے۔ تمہاری حرکتوں کی وجہ سے مجھے دشوار دن دیکھنے پڑتے ہیں‘‘ ۔

ہما نے کہا ’’سرجی، میں تو وہی پرانا آپ کا آزمایا ہوا ہما ہوں‘‘۔ مائی باپ نے کہا ’’پھر آج کل تم میرے سر سے اکثر پھسل کیوںجاتے ہو‘‘؟

ہما پنچھی نے کہا’’سر جی ، آج کل آپ ضرورت سے زیادہ گنجے ہوگئے ہیں ، میں بادل نخواستہ آپ کے گنجے سر سے پھسل جاتا ہوں‘‘۔مائی باپ سیاستدان نے کہا۔’’تمہاری بادل نخواستہ غفلت کی وجہ سے جانتے ہو ملک کا کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے؟ ‘‘

ہما شرمندہ ہوا۔ وہ چونچ جھکا کر سنتا رہا۔ مائی باپ نے کہا۔’’اقتصادی طور پر ملک کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ ہمارے کارخانےاور فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ اسکولوں، کالج اور یونیورسٹیوں کو تالے لگ جاتے ہیں ۔ سونامی کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا سمندر امنڈ آتا ہے۔ بازار بند ہوجاتے ہیں۔ بیچنے والوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ خریداروں کے پاس خریدنے کیلئے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہوتی‘‘۔

ہما پنچھی کی چونچ کھلی کی کھلی رہ گئی۔ وہ حیرت سے مائی باپ سینئر سیاستدان کی باتیں، شکوے شکایتیں سن رہا تھا۔ یہاں پر میں اپنی لاعلمی کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ ہما پنچھی مذکر ہے یا مونث ہے۔ میرے لیے ہما پنچھی مذکر ہے۔ آپ چاہیں تو ہما کو مونث سمجھ سکتے ہیں بلکہ کہہ سکتے ہیں ۔ جج صاحبان بہت بزی ہیں آج کل وہ آپ کا اور میرا سوموٹو نوٹس نہیں لیں گے۔ یہ جینڈر کا معاملہ ہے۔ آسانی سے حل نہیں ہوگا ۔ مائی باپ سیاستدان نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا۔ ’’پچھلے ستر برسوں سے میں سیاستدانوں کو مشورہ دیتا رہا ہوں کہ تیتر اور مرغیاں اور بٹیر پالنا چھوڑو۔ ہما پنچھی پالو ۔ جب جی چاہے ہما کو سر پر بٹھا دو اور اپنے مقصد اور مطلب کی مسند پر جم کر بیٹھ جائو۔ جو چاہو وہ کرو۔ اپنی آنے والی نسلوں کو صوبائی اور مرکزی اسمبلی کا ممبر بنادو۔ ہماری اسمبلیوں نے ایسا شاندار دور بھی دیکھا ہے جب سب کے سب اسمبلی ممبران آپس میں رشتے دار ہوا کرتے تھے۔ سب ممبران ایک دوسرے کے چاچے مامے، تایا، ساس سسر، نند بھاوج کزن، ماموں زاد بھائی، سالے اور بہنوئی ہوتے تھے۔ گھرپر دو ممبر صاحبان چائے پینے بیٹھیں تو اسمبلی اجلاس شروع ہوجاتا تھا۔ ملک کی قسمت کے فیصلے کردیے جاتے تھے‘‘۔

سینئر سیاستدان یعنی سیاستدانوں کے مائی باپ کی ہوشربا باتیں سنتے سنتے ہما پنچھی ہوش گنوا چکا تھا ۔ وہ کوے کی طرح کائیں کائیں کرنے لگا تھا۔ مائی باپ سیاستدان نے ہما پنچھی کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’تمہیں زیب نہیں دیتا ہما کہ تم کوے کی طرح کائیں کائیں کرتے پھرو۔ تم کنگ میکرہو ، تم اگر میٹرک فیل کے سر پر بیٹھ جائو تو بائیس گریڈ کے افسر اس کو سلام کرتے پھریں گے ۔ تم کوے کی طرح کائیں کائیں کرنا بند کرو اور خاموش رہو۔ دنیا بھر کے سیانے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں ‘‘۔

ہما پنچھی نے کہا۔’’اب جاکر مجھے پتا چلا ہے کہ دنیا میں گونگے نہیں ہوتے ۔ وہ سیانے دکھائی دینے کیلئے بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ ہم انہیں سیانا سمجھتے ہیں‘‘۔ سیاسی مائی باپ نے ہما پنچھی سے کہا ۔ ’’تم ہو بہو ہمارےسیاستدانوں کی طرح ہو۔ بات سمجھتے تو ہو ، مگر بات سمجھنے میں دیر کردیتے ہو‘‘۔

ہما پنچھی نے کہا ۔ ’’سر جی ، میں آپ کی طرح بات سمجھ گیا ہوں ۔ آپ کے سر پر بیٹھنے کے بعد میں پھر کبھی نہیں پھدکوں گا ۔ میرے پھدکنے سے آپ پھدک جاتے ہیں ۔ اور جب آپ پھدکتے ہیں تب ملک کا اقتصادی اور مالیاتی نظام پھدکنے لگتا ہے۔ ملک مزید مقروض ہونے لگتا ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے لگتے ہیں ۔ دریائوں کا پانی خشک ہونے لگتا ہے۔ تب ہم بوتے کچھ ہیں اور کاٹتے کانٹے ہیں۔ زمین ہمیں دھوکا دے دیتی ہے‘‘۔

مائی باپ سیاستدان نے ہنستے ہوئے ہما سے کہا۔ ’’پنچھی تم تقریر اچھی خاصی کرلیتے ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک روز تم پرندوں کے وزیر اعلیٰ لگ جائو‘‘۔

’’تھینک یو سر‘‘ ہما پنچھی نے کہا ۔’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہما آپ کی آنے والی نسلوں کے سر پر بیٹھا کروں گا اور کبھی نہیں پھدکوں گا ۔کیونکہ اس سے ملک کی اقتصادی حالت خراب بلکہ ابتر ہوجاتی ہے‘‘۔

تازہ ترین