پاکستان میں ایک جھوٹ بہت تواتر سے بولا گیا ۔سوویت یونین کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں تھے ۔ پاکستان خواہ مخواہ افغان جہاد میں کود پڑا ۔آج دنیا کے دو سب سے زیادہ جنگی طور پر گرم محاذوں میں سے ایک یوکرین ہے ۔ ابھی ایک ماہ قبل ایران اور اسرائیل کی جنگ سب سے زیادہ خوفناک تھی ، جس میں ایران کے آرمی چیف سمیت چوٹی کی عسکری اور سائنسی شخصیات کو شہید کر دیا گیا ۔ایران نے بھی مگر منہ توڑ جواب دیا۔
غزہ کا جہاں تک تعلق ہے ، وہ جنگ نہیں ، یک طرفہ قتلِ عام ہے ۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل جب تک مظالم کا شکار رہے ،وہ راہِ راست پر رہے ۔ جب وہ فرعون کے مظالم سے نکل آئے تو خود سب سے بڑے ظالم بن بیٹھے ۔ آپ قرآن کھولیں اور ان کی حرکتیں پڑھنا شروع کریں ۔ جب شک ہو کہ اتنا بڑا پیغمبر ایک قوم میں موجود ہو تو وہ اس طرح کی حرکتیں کیسے کر سکتی ہے تو غزہ میں بنی اسرائیل کی حرکتیں دیکھ لیں ۔ کسی ہنستے بستے ملک کو تباہ کر کے اس کے اندر اپنی پرامن سلطنت کے خواب دیکھنا اور مزاحمت پر پورے خطے کو آگ لگا دینا ۔ اکیس ماہ سے غزہ میں قتل و غارت جاری ہے ۔ دنیا کا اور کون سا ملک ہے ، جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا داخلہ بند کر سکتاہے ۔ کوئی پاگل سے پاگل قوم بھی ایسا نہیں کر سکتی ۔ بنی اسرائیل نے جس انداز میں امن و آشتی سے بھرپور ملک اسرائیل قائم کرنے کا منصوبہ بنایا، کوئی پاگل ہی اس منصوبے کوقابلِ عمل قرار دے سکتاہے ۔
ابھی آگے اور بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔رسالت مآبﷺ نے ارشادفرمایا:بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہوگی ۔ مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہوگا ۔ فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہو گی ۔ قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہو رہوگی ۔ رسالت مآبﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓسے کہا :یہ سب ایسے ہی یقینی ہے ، جیسے تمہارا یہاں بیٹھا ہونا یقینی ہے ۔ سنن ابی دائود 4294۔ رسالت مآب ﷺنے اپنے صحابہؓ کو یہاں تک پیشین گوئی کر دی تھی : قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں’’ وہن‘‘ ڈال دے گا ۔پوچھا گیا: اللہ کے رسول !’’وہن‘‘ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے‘‘آج آپ عرب دنیا کا حال دیکھ لیں ۔ اسرائیل کے حق میں وہ وعدہ معاف گواہ ہیں ۔
اسرائیلی بار بار ایک نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : اس سب (غزہ کی تباہی )کا آغاز 7اکتوبر (کو حماس کے اسرائیل پر حملے) کے نتیجے میں ہوا؛حالانکہ 7اکتوبر سے پہلے بہت کچھ ہوتا رہا۔ 1948ء، 1967ءاور1973ء کی تین باقاعدہ جنگیں ہوچکی ہیں ۔ یہودی بستیوں کی آبادکاری ہوتی رہی۔ عراق اور شام کی تباہی میں اسرائیل نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ابھی گزشتہ ماہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ۔ اس خطرے کے پیشِ نظر کہ وہ ایٹم بم بنانا چاہتا ہے اور خود وہ کب کے بنا چکے ۔ اسرائیلی رویے سے خود برطانیہ ، فرانس اور کینیڈا کی بس ہو گئی ۔
اسرائیل اس راستے پر آگے بڑھ رہا ہے ، جہاں بربادی اس کا مقدر ہے ۔جہاں تک مسلمان ممالک کا تعلق ہے ، انہوں نے تو مکمل طور پر پیٹھ دکھا دی ۔ صرف ایران نے مزاحمت کی ۔ 1967ء اور 1973ء کی جنگ میں پاکستان نے پائلٹ بھیجے ۔ پاکستانی پائلٹ سیف الاعظم نے کم از کم چار اسرائیلی جنگی جہاز گرائے ۔ آج ہر طرف مکمل خاموشی ہے ۔ مسلمان ممالک خاموشی سے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ایران اگر بہت خوفناک مزاحمت نہ کرتا تو ترکی یا پاکستان میں سے ایک کی باری آچکی ہوتی ۔ عراق اور شام سمیت خطے میں اسرائیل کیلئے خطرہ بننے والی تمام رکاوٹیں ہٹائی جا چکی ہیں ۔آپ مگر قرآن اٹھا کر پڑھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کی یہ لڑائی صرف عیسائیوں اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھی ۔وہ خدا کے منصوبے کی مزاحمت کرتے چلے آئے ہیں ۔ یہ بات انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ غیر یہودیوں میں حضرت عیسیٰ ؑ اور سرکارِ دو عالمﷺ کی بعثت ہو سکتی ہے ۔ آج تک وہ خدا کے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں ۔ جو خدا کی مزاحمت کا فیصلہ کرلے ، اس کا کیا مستقبل ہو سکتاہے ۔
یوکرین اس وقت دنیا کا سب سے گرم محاذ ہے ۔ ان کیلئے سبق ہے ، جو کہتے ہیں کہ سوویت یونین کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں تھے ۔ پاکستان خوامخواہ افغان جنگ میں کود پڑا؛حالانکہ پاکستان کے پاس سویت یونین اور امریکہ کی افغان جنگوں سے لا تعلقی کا کوئی آپشن موجود ہی نہیں تھا ۔پاکستان میں انقلاب لانے کی تیاری ہو چکی تھی ۔ یورپ نے 2014ءمیں ہلہ شیری دے کریوکرین میں روس نواز حکومت گرائی ۔ یہ غلطی آج تک امریکہ اور یورپ کے گلے پڑی ہوئی ہے ؛حتیٰ کہ حواس باختہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر سے کہا : تم تیسری عالمی جنگ کے ساتھ کھیل رہے ہو ۔ ہمارے میزائل تمہیں مہیا نہ ہوں ، تم دو ہفتے میں جنگ ہار جائو ۔تیسری عالمی جنگ امریکہ کو اس وقت یاد نہیں آئی، جب وہ یورپ کے ساتھ مل کر یوکرین میں اپنی کٹھ پتلی حکومت بنا رہا تھا۔
عین اس موقع پر ، جب عالمی طاقت ہونے کے ناطے امریکہ کو پوری قوت کے ساتھ یورپ کے ساتھ مل کرروس کے خلاف لڑنا تھا، ٹرمپ کی صورت میں ایک بنیاامریکی صدر بن گیا ۔ دوسری طرف چین معاشی میدان میں امریکہ کو پچھاڑنے آرہا ہے ۔ اس چیلنج سے نمٹنےکیلئے ٹرمپ نے کن ٹٹا بن کر دنیا سے پیسے اکٹھے کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ کبھی کینیڈا کوسالم نگلنے کی خواہش ، کبھی یوکرین کی معدنیات۔ اب نظر پاکستان کی معدنیات پر ہے،انائوں کی جنگ کے نتیجے میں جو سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے اور شدید معاشی مسائل کا شکار ۔آگے آگے دیکھیے ، ہوتا ہے کیا۔