آج 24جولائی ہے، آج سے انتالیس سال پہلے ایک ایسی عظیم پاکستانی شخصیت نے اس فانی دنیا کو خیرباد کہا جو سر تا پیر جذبہ حب الوطنی سے لبریز تھی، جو مالک کی کرپا سے اپنی محنت، لگن اور قابلیت سے اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئی،جس نے بیوروکریسی کے ماحول میں رہتے ہوئے بھی قلم اور کتاب سے اپنا تعلق مضبوط کیا، جو اپنے آپ کو سرکاری افسر نہیں بلکہ اپنے عہدے کو روحانیت کے حصول، خداترسی اورمخلوق کی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھتا تھا۔قدرت اللہ شہاب 1917ء میں برطانوی ہندوستان کے زیرانتظام گلگت میں پیدا ہوئے، انکے والدین نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب، ایماندار اور دیانت دار انسان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قدرت اللہ شہاب آزادی سے قبل انڈین سول سروس کا مقابلہ جیتنے کے بعد سول سروس کا حصہ بنے اور بعدازاں قیامِ پاکستان کے بعد اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے، انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مختلف ادوار میں گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ بطور پرائیویٹ سیکرٹری خدمات سر انجام دیں، وہ ایجوکیشن سیکرٹری، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اوراقوام متحدہ میں یونیسکو سےبھی وابستہ رہے۔ اپنی سرکاری خدمات کے دوران انہوں نے اقتدار کی غلام گردشوں، ریاستی معاملات و ترجیحات اور بیوروکریسی کے اندرونی حساس معاملات کا باریک بینی سے قریب سے مشاہدہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف’’'شہاب نامہ‘‘میںابتدائی زندگی، زمانہ طالب علمی، ملازمت کے ایام، قیام پاکستان، بیوروکریسی، اورریاستی نظام کو درپیش مسائل کا تفصیلی آنکھوں دیکھا حال پیش کیا ہے، اس کتاب کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ تحریر میں جو اخلاص اور سچائی چھلکتی ہے، وہ پڑھنے والے کو بار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا پاکستان کے سرکاری نظام میں واقعی کوئی افسر اتنا سچا، نڈر، ایماندار اور خدا پر بھروسہ رکھنے والا ہو سکتا ہے؟ تاہم قدرت اللہ شہاب کے بے داغ کردار، اصول پسندی اور دیانت داری کا اعتراف اُن سے ملنے والا ہر شخص کرنے پر مجبور ہوا۔ شہاب نامہ نے اپنی اشاعت کے فوراََ بعد دانشوروں، اسٹوڈنٹس، ڈپلومیٹس اور بیوروکریٹس کے درمیان مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیے،آج لگ بھگ چار دہائیاں بیتنے کے باوجود اردو ادب میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سوانح عمری شہاب نامہ کو ہی قرار دیا جاتا ہے جسکی بدولت عام آدمی کو اقتدار کی غلام گردشوں میں جھانکنے، ریاستی معاملات سے آگاہی اور حکومتی نظام کی پوشیدہ حقیقتوں سے آشنا ئی حاصل ہوئی، تاہم مجھے قدرت اللہ شہاب کی کتاب کے جس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ انکا روحانیت اور تصوف کو نہایت موثر انداز میں بیان کرنا ہے، بالخصوص انکا یہ عقیدہ دِل کو چھو لیتا ہے کہ مجھے جب بھی کوئی تکلیف یا پریشانی لاحق ہوئی، میں نے صرف مالک کا در کھٹکھٹایااور دیکھتے ہی دیکھتے حالات پلٹ گئے،قدرت اللہ شہاب کی کتاب میں ایک ایسی پُراسرار روحانی شخصیت کا بھی تذکرہ ہے جو انہیں مشکل کے ہر مرحلے پر نصیحت کرتی کہ خوف کو دل سے نکال دے، سب ٹھیک ہو جائے گااور پھرواقعی ایسا ہی ہوتا۔ قدرت اللہ شہاب کا ایمان محکم تھا کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ خداکے حکم سے ہوتا ہے، وہ ہر مشکل میں مالک کی حکمت تلاش کرتے تھے، انکا ماننا تھا کہ جب کوئی در بند ہوتا ہے تو اسکی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ رب نے اس دروازے کے پیچھے کوئی خیر نہیں رکھی، وہ عبادات کے معاملے میں نماز، ذکر اور مراقبہ جیسے باطنی اعمال کے قائل تھے، وہ دِل کی پاکیزگی، نیت کی سچائی اور ذکرِ خدا کو اصل روحانیت مانتے تھے، انہوں نے بارہا پردہ اٹھایا کہ کیسے کچھ لوگ ظاہری روحانیت کے پردے میں دنیاوی مفادات حاصل کرتے ہیں جبکہ اصل روحانیت عاجزی، صداقت اور خدمت میں ہے، انکا کہنا تھا کہ ظاہری طور پر روحانی لبادہ اوڑھ لینے سے کوئی ولی نہیں بن جاتا، دِل کا لباس صاف ہونااولین شرط ہے، شہاب نامہ میں متعدد خوابوں کا ذکربھی ملتاہے جن میں انہیں مستقبل کے معاملات کیلئے غیبی رہنمائی، تنبیہ یا حوصلہ ملتا ہے، وہ اپنے ان خوابوں کو باطنی ترقی کا حصہ سمجھتے تھے۔قدرت اللہ شہاب کے مطابق انسان کی زندگی کا مقصد صرف اپنے حالات کو بدل کر معیارِ زندگی بہتر بنانا نہیں بلکہ دوسروں کی مدد، انصاف، اور محبت کا پیغام عام کرنا بھی ہے، انہوں نے اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر رہتے ہوئے متعدد مرتبہ سرکاری پالیسیوں میں انسان دوستی، انصاف اور غریب پروری کا رحجان متعارف کرایا،انہوں نے ثابت کیا کہ روحانیت کا سب سے موثر طریقہ مخلوق ِ خدا کی خاموش خدمت ہے، خود کو بہتر بنانا، بغیر دکھاوے کے نیکی کرنا، اور فقط خدا کی خوشنودی کیلئے جینا ہی اصل مقصدحیات ہے،میری نظر میں قدرت اللہ شہاب نے اپنے قلم سے یہ آفاقی حقیقت بیان کی ہے کہ سچائی، ایمانداری اور اصول پسندی کی راہ پر چلنے والوں کیلئے اوپر والا خود غیبی راستے بناتا ہے۔قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کواپنے رب کے حضور پیش ہوگئے لیکن شہاب نامہ کی صورت میں ایک ایسا ادبی شاہکار تحریرکرگئے جس میں درج اصولوں کو اپنالیا جائے توہم اپنے پیارے وطن کو ترقی و خوشحالی کی نئی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔مجھے پاکستان سول سروس اکیڈمی کے توسط سے سرکاری افسران کو لیکچر دینے کا باقاعدگی سے موقع ملتا ہے، میں انہیں تلقین کرتا ہوں کہ وہ مشکل کے ہر موڑ پر قدرت اللہ شہاب کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور ہمیشہ شہاب نامہ سے راہنمائی حاصل کریں۔آج جذبہ حب الوطنی سے سرشارعظیم بیوروکریٹ،مصنف،افسانہ نگار، سفارتکار اور روحانی شخصیت قدرت اللہ شہاب کی 39ویں برسی کے موقع پر میری اربابِ اختیار کو تجویز ہے کہ نئی نسل کو شہاب نامہ سے روشناس کرانے کیلئے اِسے نصابِ تعلیم میں لازمی شامل کیا جائے اور ہر سال سول سروس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کیلئے حکومتی ایوارڈز قدرت اللہ شہاب کے نام سے منسوب کیے جائیں۔