سوات کے علاقے خوازہ خیل میں ایک دینی مدرسے کے 14سالہ طالبعلم کی اپنے استاد کے بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں لرزہ خیز موت جہاں ہر جہاں صاحب اولاد کے لئے دل دہلا دینے والا واقعہ ہے وہاں ارباب اختیار کے لئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس طرح کے ظلم کی روک تھام کے لئے قانون تو موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اسے مزید موثر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مارے جانے بچے نے اپنے استادوں کی مارپیٹ کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ دیا تھا مگر مدرسے کے مہتمم کی یقین دہانی پر باپ اسے دو بار وہاں چھوڑ گیا ۔ استاد نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور بچے کی پٹائی شروع کر دی۔ جب تھک جاتا تو دوسرے استاد کے حوالے کر دیتا۔ اس طرح کئی افراد نے اس کی اتنی پٹائی کی کہ وہ بے ہوش ہوگیا اس کی سانس بند ہونے لگی تو اسپتال بھجوا دیا گیا جہاں پہنچنے سے پہلے ہی اس نے دم توڑ دیا۔ اس بہیمانہ قتل کا مقدمہ درج کرکے چار میں سے دو ملزم پولیس نے گرفتار کرلئے ہیں جبکہ مزید 9زیرحراست ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور والدین اپنے بچوں کو دینی علم سے آراستہ کرنے کیلئے مدرسوں میں داخل کراتے ہیں جہاں بعض شقی القلب اساتذہ جو خود دینی تعلیمات سے زیادہ تر نابلد ہوتے ہیں، انہیں محبت اور اخوت کا درس دینے اور ذمہ دار شہری بنانے کی بجائے معمولی باتوں پر اذیت ناک سزائیں دینا شروع کردیتے ہیں۔ بعض معصوم بچوں کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات کا ذکر میڈیا میں بھی آتا رہتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ غیر رجسٹرڈ مدرسوں پر مکمل پابندی عائد کردے۔ مارپیٹ کی روک تھام یقینی بنائے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دے تاکہ اسلامی علوم کے اداروں کی ساکھ خراب کرنے کی کسی میں جرأت پیدا نہ ہوسکے۔دینی مدرسوں میں تعلیم دینے والوں کی اہلیت کامعیاربھی یقینی بنایاجائے۔