• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زکریا یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس تھا جس کی صدارت بطور چانسلر میاں محمد اظہر مرحوم کر رہے تھے ۔اجلاس شروع ہوتے ہی کچھ ’’ صالحین ‘‘نے میرے خلاف ایک اخبار کا باتصویر تراشہ تقسیم کیا اور کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی سے ایسے ملک دشمن اور استاد کے وقار کو خاک میں ملانے والے شخص کو نکالا جائے ۔میاں اظہر نے اسے پڑھا اور پھر کہا یہ کس تقریب کی تصویر ہے ؟ اس پر ڈاکٹر طاہر تونسوی مرحوم نے کہا کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملتان میں ایک سیمینار ’’جنوبی پنجاب کے مسائل‘‘ کی صدارت کی تھی جس میں ' ملزم انوار احمد ' نے بھی خطاب کیا اس پر میاں اظہر نے کہا اساتذہ کرام! بیرون ملک جاکے دیکھیں وہاں ان استادوں کی قدر ہوتی ہے جو حکومت وقت سے اختلاف کرتے ہیں ۔رجسٹرار سے کہا ’’کارروائی میں درج کریں کہ ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا جسے چانسلر نے مسترد کر دیا‘‘ ۔

اتفاق سے دوسرا واقعہ بھی اسی یونیورسٹی کا ہے میں دھڑے باز ہوں ، ہمارا گروپ چاہتا تھا کہ کیمسٹری کے استاد ڈاکٹر اسحاق اختر ڈین آف سائنس ہو جائیں جب کہ وفاقی وزیر تعلیم سید فخر امام ڈاکٹر ممتاز بخاری صاحب کی سفارش کر چکے تھے۔تاریخ کے استاد ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی نے اسحاق اختر مرحوم کا ایک انٹرویو لیا کہ آپ گوجرانوالہ کے ہیں کوئی میاں اظہر صاحب تک پہنچنے کا راستہ ہے ؟ اسحاق صاحب نے کہا کہ اسکول کے زمانے میں میرا ایک دوست ’’ٹونی‘‘ تھا جو میاں اظہر اور میرے ساتھ فٹ بال کھیلا کرتا تھا اب اس کا اپنا اسٹیل کا کاروبار ہے ۔ شدید گرمیوں کا موسم تھا ڈاکٹر درانی صاحب نے اپنی گاڑی میں مجھے اور اسحاق صاحب کو ڈالا اور لاہور جا پہنچے ۔ ٹونی صاحب کے کارخانے میں پہنچے تو انہوں نے ٹھنڈا پانی پلایا اور ساتھ کہا کہ یہ اسحاق تو بہت کنجوس ہے اور تعلقات کو سنبھالنا بھی نہیں جانتا مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ تاریخ کا ایک سینئر پروفیسر اردو کے استاد کوساتھ لے کر شدید گرمی میں نکل پڑاہے میں نے کہا جناب اگر دیر ہوئی اور ڈین آف سائنس کا نوٹیفکیشن فلاں کے حق میں نکل آیا تو درانی صاحب سے کوئی بعید نہیں کہ ہمیں گاڑی سے اتار کے کہیں بادامی باغ سے ملتان کی کوئی بس دیکھو۔ ٹونی صاحب نے اعتماد سے کہا بے فکر ہو جائیں ۔ وہ گورنر ہائوس گئے اور آدھ گھنٹے کے بعد خوش خبری لائے اور کہا کہ میاں جی نے پرنسپل سیکرٹری سے کہا کہ یہ نوٹیفیکیشن ایک ہفتہ پہلے کی تاریخ میں نکالنا تاکہ سید فخر امام صاحب سے کہا جا سکے کہ ان کی سفارش سے پہلے یہ فائل نکل گئی تھی ۔

٭٭٭٭

شاہ جی ہمارے صدر شعبہ تھے بہت محنتی ، مخلص اور ایمان دار ،ڈاکٹر سید عبداللہ کے چہیتے شاگرد تھے مگر ش ق کے ساتھ خوش لباسی پر بھی ان کی توجہ کم تھی ، سو اے بی اشرف ، عرش صدیقی ، سلیم اختر صاحبان بھی انہیں زیادہ پسند نہیں کرتے تھے اس لئےشاہ جی میری " سعادت مندی " کو مشکوک خیال کرتے تھے ، سید افتخار حسین شاہ مرحوم کی مکتوب نگاری مشہور تھی مجھے یاد ہے ڈاکٹر محمد انور نسیم نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فیصل آباد کو سائنس سٹی ڈکلیئر کیا جائے تب شکرگڑھ (سیال کوٹ) کے شاہ جی نے ایک خط میں لکھا کہ ملتان کو یہاں کے وڈیروں نے پس ماندہ رکھا ہے اس لئے ہر اعتبار سے ملتان مستحق ہے کہ اسے سائنس سٹی بنایا جائے ۔ کل سے میں کوشش کر رہا ہوں کہ مجھے ملکی جامعات سے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی درست تعداد مل جائے مگر بدقسمتی سے جس جس سے میں نے پوچھا وہ سرمست خواب تھا ۔ اگر ہم فرض کریں ملک میں ایک لاکھ اردو کے پی ایچ ڈی ہیں تو مقالات دو چار کے ہی مسترد ہوئے ہوں گے ۔ہمارے سید افتخار حسین شاہ مرحوم کے ساتھ واضح ظلم ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر محمد صادق نے اردو کے اسالیب بیان کے موضوع پر شاہ جی کا مقالہ مسترد کر دیا (جی ڈاکٹر صادق انگریزی کے استاد تھے اردو میں پی ایچ ڈی کر چکے تھے ، رالف رسل نے ان کی ہسٹری آف اردو لٹریچر پر جو لکھا اسے دہرانے کا موقع نہیں) شاہ جی کی آخری آرام گاہ برمنگھم میں ہے جہاں میں فاتحہ کے بہانے معافی مانگنے گیا تھا کہ شاہ جی آپ کا شکوہ درست تھا کہ میں کچھ اور بزرگوں کے سحر میں گرفتار تھا جب خاکے لکھ رہے تھا یاد گار زمانہ … بہر طور شاہ جی کی ایک بیٹی عزت قسیم شاہ نے انگریزی نظموں کی ایک کتاب لکھی ہے

Tales of Heartsجس میں ایک نظم ہے ' اے ڈائیلاگ ود فادر 'اسے پڑھا جائے تو ان کی دونوں بیٹیاں اور بیٹا ہی نہیں ہم جیسے شاگرد بھی اشک بار ہو جاتے ہیں ۔ شاہ جی کے بیٹے ڈاکٹر شہزاد شاہ نامور سرجن ہیں وہ برمنگھم میں اپنے والد کی یاد میں 27ستمبر کو ایک عالمی کانفرنس کرا رہے ہیں مشاعرہ بھی ، ڈاکٹر شہزاد اگر اس کانفرنس کے شرکا میں اپنے والد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی چھپوا کے تقسیم کریں اور اسے پنجاب یونیورسٹی کی سیاست یا ڈاکٹر محمد صادق سے معنون کریں تو شاید ہمارے دلوں کا بوجھ بھی کم ہو جائے ۔

٭٭٭٭

اس مرتبہ میں سعید ابراہیم کی فکر انگیز کتاب پر لکھنا چاہتا تھا ’’تعلیم اور تباہی ‘‘ جو مجھے اپنے خلاف ایک چارج شیٹ محسوس ہوئی خاص طور پر یوں کہ انہوں نے کہا ہے کہ جس کی ڈرائنگ اچھی نہ ہو اسے استاد نہیں ہونا چاہئے مگر ہم کیا کریں جن کی تربیت ’’ ٹیڑھی لکیر ‘‘ کی مصنفہ عصمت اور ان کے دوست منٹو نے کی ہو وہ سیدھی لکیر کیسے کھینچیں ؟

تازہ ترین