• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ مجھے برسوں بعد ملا، ہمارے ہی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا مگر اب اس سے ملاقات اسلام آباد میں ہو رہی تھی، اب وہ کسٹم میں ڈپٹی کمشنر تھا، میں نے اس سے کہا: کسی دن وقت نکالو، شام کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں۔ وہ بجائے جواب دینے کے کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا، میں نے اسے پھر سے کہا، خاموش کیوں ہو گئے ہو؟ کہنے لگا ’’آپ شاید میرے بارے میں پورا نہیں جانتے، میں کسٹم میں ڈی سی ضرور ہوں مگر میری سرکاری گاڑی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر۔ جونہی گھر پہنچتا ہوں تو اس کے بعد میں سائیکل پر دو تین جگہ ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، تنخواہ کے علاوہ ٹیوشن کی کمائی کر کے گزر بسر کرتا ہوں، اپنے بچوں کو رزق حلال کھلانے کی پوری کوشش کرتا ہوں، سو میرے پاس وقت ہی نہیں بچتا کہ میں کسی دوست کے ساتھ ڈنر کر سکوں‘‘۔

سچی بات ہے مجھے اس کا یہ انکار ایک لمحے کے لئے بھی برا نہ لگا بلکہ میں اس کی دیانتداری پہ رشک کرنے لگا اور پھر میں نے اسے اپنے ایک کلاس میٹ کا قصہ سنایا، میں نے کہا کہ میرا فلاں کلاس میٹ ڈی آئی جی پولیس ہے، میں نے ایک دن اس سے بے تکلفی میں پوچھا کہ اتنے بڑے شہر میں کوتوال ہو، کیا کچھ بنایا ہے؟ یہ باتیں اس کے گھر پر ہو رہی تھیں، اس نے اپنی بیٹی کو بلایا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا، "میں نہیں چاہتا کہ اس کے حلق میں حرام رزق کا کوئی لقمہ اترے"۔ ان دونوں شخصیات کے نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا کہ ان سے برسوں کا یارانہ ہے، کہیں یار لوگ تشہیری پہلو نہ نکال لیں مگر میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگرچہ کرپشن تمام محکموں میں پھیل چکی ہے مگر پھر بھی ان کرپٹ محکموں میں کہیں نہ کہیں کوئی ایک دو کردار ایسے مل ہی جاتے ہیں جو دیانتداری کو پالتے ہیں اور حرام حلال کی تمیز ایمانداری سے کرتے ہیں۔ میرے ایک لائل پوری دوست نے بتایا کہ وہ واپڈا میں کام کرتا تھا اور اس کے پاس ایک ایس پی شوکت عباس آیا کرتا تھا، شوکت عباس اپنے گھر کے بل کی قسطیں کروانے آتا تھا، وہی شوکت عباس آج کل کسی صوبے میں ایڈیشنل آئی جی لگا ہوا ہے۔ بات بجلی کی چل نکلی ہے تو کیوں نہ مجاہد پرویز چٹھہ کی بات کر لی جائے، اتفاق سے مجاہد پرویز چٹھہ کا تعلق بھی فیصل آباد سے ہے، دیہاتی آدمی ہے، ایف ایس سی کرنے کے بعد فیصل آباد سے سیدھا یو ای ٹی لاہور پہنچے، مجاہد پرویز چٹھہ نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تو انہیں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے امریکہ سے اسکالر شپ مل گیا۔ ایک دیہاتی لڑکا بہت خوش ہوا اور وہ خوشی کی خبر لے کر فیصل آباد کے قریب گاؤں میں والدین کے پاس گیا۔ والدین کو خوشی کی خبر سنائی تو والد بزرگوار کہنے لگے " تم امریکہ چلے جاؤ گے اور ہم یہیں رہ جائیں گے، ہم نے تو آپ کو لاہور بڑی مشکل سے بھیجا تھا"۔ مجاہد پرویز چٹھہ نے ایک منٹ کے لئے سوچا اور پھر فیصلہ کیا کہ مجھے ہر حال میں والدین کے پاس رہنا ہے، بس اسی لمحے اسکالر شپ کو ٹھکرانے کا فیصلہ کر لیا۔ وقت گزرتا رہا پھر ایک دن ایسا آیا، مجاہد پرویز چٹھہ کو لیسکو کا سربراہ بنا دیا گیا، یہ بھی ایک پوری کہانی ہے، آج کل بجلی کے وزیر اویس لغاری ہیں، آج سے کچھ برس پہلے بھی بجلی کے وزیر اویس لغاری ہی تھے۔ یہ قصہ کچھ برس پہلے کا ہے، لیسکو کی سربراہی کے لئے 47 لوگوں کے انٹرویوز ہوئے تو سیدھا سادہ مجاہد پرویز چٹھہ ٹاپ کر گیا۔ لیسکو کا سربراہ لگاتے ہوئے اویس لغاری نے مجاہد پرویز چٹھہ سے تین باتیں کیں، ڈی جی خان کا لغاری بولا ’’ میں آپ کو تین وجوہات کی بنیاد پر لیسکو کا سربراہ لگا رہا ہوں

1۔ آپ نے 47 بندوں میں سے ٹاپ کیا ہے

2۔ آپ نے کوئی سفارش نہیں کروائی

3۔ میں نے آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ دیانتدار ہیں‘‘۔ تہجد گزار سردار فاروق لغاری کا صاحبزادہ ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر مجاہد پرویز چٹھہ سے کہنے لگا ’’ ایک چوتھی بات بھی ہے، وہ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ کہہ دینا کہ اس نے مجھے لیسکو میں بغیر کسی سفارش کے سربراہ لگایا تھا‘‘۔ یہ بات سردار فاروق لغاری کا صاحبزادہ ہی کہہ سکتا ہے، بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ سردار فاروق لغاری نے اپنے والد کی نماز جنازہ خود پڑھائی، وصیت کے مطابق نماز جنازہ کے لئے شرائط ایسی تھیں کہ وہاں موجود ہزاروں افراد میں سے کوئی بھی ان شرائط پر پورا نہیں اترتا تھا، آفرین ہے اس دھرتی پر کہ وہ ایسے انمول ہیرے بھی جنم دیتی ہے، جب ہر طرف کرپشن کے بازار کھلے ہوں تو ایسے میں جو لوگ دیانتدار ہوں، انہیں سلام کرنا چاہئے۔ باقی لوگ ان لوگوں سے سبق حاصل کریں اور فراز کا شعر پڑھیں کہ

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تازہ ترین