حریم فاطمہ
ہم ایک ایسے دَور میں جی رہے ہیں کہ جسے ترقّی یافتہ، جدید اور ڈیجیٹل زمانہ کہا جاتا ہے۔ آج تمام روایات، اقدار تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں اور فاصلے سمٹنے سے دُنیا ’’گلوبل ویلیج‘‘ میں تبدیل ہو چُکی ہے، مگر اِس تیز رفتار ترقّی نے رشتوں، ناتوں کو بہت حد تک کم زور کر دیا ہے۔ کبھی یہی رشتے ناتے ہماری پہچان ہوا کرتے تھے۔
جذبات کی زبان، دِل کی آواز، ماں کی خاموش دُعائیں، باپ کی تفکّرات سے بَھری نگاہیں، بہنوں کے بےسبب گِلے شکوے، بھائیوں کی بےلوث محبّت اور دوستوں کی بےساختہ مسکراہٹ… یہ سب رشتوں کے وہ طور اطوار تھے کہ جو دِل کو سکون دیتے، زندگی میں رنگ بھرتے تھے۔
مگر… آج رشتے، ناتے محض دکھاوا بن کے رہ گئے ہیں۔ لوگ خلوص و محبّت سے زیادہ اِس بات کی پروا کرتے ہیں کہ دوسرے اُنہیں کیسا سمجھتے ہیں۔ آج حقیقی رشتے سوشل میڈیا پوسٹس، اسٹیٹس اَپ ڈیٹس، منہگے تحفے تحائف اور مصنوعی، بے رُوح مسکراہٹوں ہی تک محدود ہو چُکے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب خاندان کے افراد اظہار کیے بغیر ہی ایک دوسرے کی پریشانیوں، تفکّرات کا ادراک کر لیتے تھے۔ بچّوں کی غیر معمولی خاموشی پرمائیں بےچین ہوجاتیں۔ باپ اور بیٹےایک دوسرے کو اُداس دیکھ کر پریشان ہوجاتے۔ بھائی کو گھر پہنچنے میں تاخیر ہوتی، تو بہن دروازے پر کھڑے ہو کر اُس کی راہ تکتی ملتی۔ دوستوں کی کئی روز تک ایک دوسرے سے ملاقات نہ ہوتی، تو وہ تشویش کا شکار ہو جاتے، میل ملاقات کے لیےگھر پہنچ جاتے۔
تب رشتوں کی بنیاد محبّت، احساس، قُربانی اور سچّائی پرتھی۔ اُس دَور میں اگرکسی سے ناراضی ہوبھی جاتی، توزیادہ دیر برقرار نہیں رہتی تھی کہ رُوٹھے کو منانے کے لیے چند میٹھے بول ہی کافی ہوتے تھے۔ تب آنکھیں دل کا آئینہ ہوا کرتی تھیں اور چہروں پر سچّے اور سُچّے پن کا عکس دکھائی دیتا تھا۔ اس کے برعکس آج ہمارے رشتوں اور تعلقات کی بنیاد ہی منافقت اور ریا کاری پر ہے۔
مثال کے طور پر اب جب ہماری اپنے کسی رشتے دار یا دوست سے ملاقات ہوتی ہے، تو ہمیں حال چال پوچھنے کی بجائے سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے لیے سیلفی لینے کی فکر لاحق ہوتی ہے، تاکہ ہم دوسروں کو متاثر کر سکیں۔
اِسی طرح کسی کی سال گرہ پر اُسے تحفہ اس نیّت سے دیا جاتا ہے کہ وہ بھی اس کے بدلے ہمیں کچھ دے گا اور اگر کوئی فرد ہمیں فائدہ پہنچانے سے قاصر ہے، تو اُس سے تعلق کو بے معنی اور بے کار سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔
آج مادّہ پرستی کے شکار افراد والدین کی رفاقت کی بجائے ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں کے وقت گزارنے کی نسبت ’’رِیلز‘‘ دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نیز، مفاد پرستی کی دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل چُکے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے کسی رشتے دار یا دوست کی کال موصول نہ ہو، تو ہم اس بد گُمانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ شاید اب اُنہیں ہماری ضرورت نہیں، لیکن ہم خود کسی کو فون کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
گرچہ سوشل میڈیا نے اس دُنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ رشتوں کی فطری خُوب صُورتی بھی نگل گیا ہے۔ اب اگر کسی کی شادی ہو، تو سب سے پہلے فوٹوگرافر اور ڈیکوریشن پلانر کی خدمات حاصل کرنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے اور کسی کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس رشتے سے دولھا اور دُلہن خوش بھی ہیں یا نہیں، کیوں کہ رشتے کا اصل مقصد دکھاوا، ریا کاری ہوتا ہے۔
آج شادی بیاہ کی تقریبات، جو کبھی خاندان کے میل ملاپ کا ذریعہ تھیں، خالی خولی نمائش میں تبدیل ہوچُکی ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ میّت کی تجہیز وتکفین کے موقعے پر بھی سیلفیز لینے، ویڈیوز بنانے سے باز نہیں آتے۔ یہ منافقت نہیں، تو پھر اور کیا ہے، کیوں کہ حقیقی رشتوں میں تو دکھاوے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔
یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ آج معاشرے میں رشتے نِبھانے والے پُرخلوص اور سچّے افراد زیادہ ترتنہا ہی رہ گئے ہیں کہ اِنہیں عموماً ’’سادہ‘‘، ’’بے وقوف‘‘ یا ’’سِلو‘‘ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے، لیکن درحقیقت وہی اصل انسان ہیں۔ ہر مفاد سے بالاتر ہوکر کسی کو وقت دینا، اُس کا حال احوال معلوم کرنا اور اُس کے دل کی باتیں سُننا، یہ وہ اوصاف ہیں کہ جو آج تقریباً ناپید ہی ہو چُکے ہیں اور جو چند ایک لوگ اِن عُمدہ روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں، وہ یقیناً قیمتی ہیروں کی مانند ہیں۔
تاہم، اِس سب کے باوجود بھی بہتری کی کچھ اُمید اب بھی باقی ہے۔ اگر ہم چاہیں، تو اپنے تعلقات، رشتوں، ناتوں کو ایک موقع اور دے سکتے ہیں اوراِس مقصد کے لیے بس کچھ وقت نکالنا ہوگا۔ یاد رہے، آپ کا ایک میسیج، ایک کال، ایک ملاقات یا ایک خلوص بھرا خط سب کچھ بدل سکتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولیں، تصنّع اور بناوٹ کی بجائے بامعنی، حقیقی رشتے قائم کریں۔
کسی مفاد اور مطلب کے بغیر دوسروں کا حال چال معلوم کریں، اُن کا خیال رکھیں۔ کسی بھی قسم کے دکھاوے سے گریز کریں۔ یاد رہے کہ ایک سچّی مسکراہٹ، خلوص بھرا رویّہ منہگے تحائف، پُرکشش پوسٹس اور مصنوعی تبسّم سے کہیں بہتر و افضل ہے۔
نیز، دوسروں کو معاف کرنے کی عادت بھی اپنائیں، کیوں کہ رشتے بچانے اور نبھانے کے لیے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ المختصر، رشتے ناتے انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ اگر ہم اِن کی قدر نہیں کریں گے، تو ایک دن ہمیں پچھتانا ہی پڑے گا۔ دکھاوے کا تعلق، وقتی خوشی تو دے سکتا ہے، لیکن دلی طمانیت اور رُوحانی سکون صرف پُرخلوص رشتوں سے ملتا ہے۔