بات 1999ء سےشروع ہوتی ہے،جب نواز شریف مُلک کے وزیرِاعظم تھے اور آرمی چیف، جنرل پرویز مشرف نے اپنے عہدے، طاقت کے بل بُوتے پر نہ صرف اُن کا اقتدار ختم کیا بلکہ مُلک کے صدر بن بیٹھے۔ نواز شریف پر الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے جنرل مشرف کا طیارہ اغوا کروایا۔ اور اِس الزام پرسن 2000ء میں نواز شریف کو عُمر قید کی سزاسُنادی گئی۔ پھرایک روز اچانک خبر آئی کہ نواز شریف جیل سے ائیرپورٹ گئے اور وہاں سےاپنے اہلِ خانہ کے ہم راہ سعودی عرب کے شہر جدّہ چلے گئے۔
وقت گزرا، 2005ء میں افتخار محمّد چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے لاپتا افراد کے کیس سُننے شروع کردیے۔ جن اداروں پر لوگوں کو غائب کرنے کا الزام ہوتا تھا، اُنہیں حُکم دینا شروع کیا کہ لاپتا افراد کو بازیاب کروایا جائے۔ نیز، وہ حکومتی اقدامات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے۔ حکومت، اسٹیل مل کی نج کاری کررہی تھی،افتخارچوہدری نے اُس کےخلاف فیصلہ دے کےنج کاری رُکوا دی۔
ایسے فیصلوں سے حکومت پریشان ہورہی تھی، سو اِس وجہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔9 مارچ2007 ء کو جنرل پرویزمشرف نےافتخارچوہدری کو بلایا، اور اُنہیں چیف جسٹس کےعہدے سےہٹا کر جسٹس جاوید اقبال کو سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقررکردیا۔ اِس ملاقات کی جو تصویر قوم تک پہنچی، اُس میں جنرل مشرف وردی میں ہیں، اور افتخار چوہدری اُن کے سامنے بیٹھے ہیں۔ حکومت کی طرف سے افتخار چوہدری کے خلاف ایک ریفرنس بھی سپریم جوڈیشل کائونسل میں دائرکیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کائونسل ایک ادارہ ہے، جو ججز پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیتا ہے۔ افتخارچوہدری پر الزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے میڈیکل کالج میں داخلےاوربعدازاں مختلف تعیناتیوں کے لیے اثرو رسوخ استعمال کیا۔ ایک الزام یہ لگا کہ چیف جسٹس صرف ایک کار استعمال کرنے کے مجاز تھے، لیکن سات گاڑیاں استعمال کرتے رہےاورگورنر، وزیرِاعلیٰ کے زیرِاستعمال ہیلی کاپٹر اور جہاز استعمال کرنےکا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ کسی کیس میں افتخارچوہدری کا زبانی حُکم کچھ اور ہوتا اور تحریری حُکم کچھ اور۔ جب کہ اُن پر اختیارات کے ناجائزاستعمال کا الزام بھی لگا۔
حکومت نے یہ حُکم جاری کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کائونسل کوئی فیصلہ نہیں کر لیتی، افتخار چوہدری کام نہیں کریں گے، اُن کی جگہ قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔ جنرل مشرف ایک آمر، جبر کا استعارہ تھے، اور اُس وقت تک کئی وجوہ کی بناء پرمُلک میں اُن کے لیے ناپسندیدگی بڑھ رہی تھی۔ چوں کہ افتخار چوہدری کے زیادہ تر فیصلے حکومتِ وقت کے خلاف ہوتےتھے، تو اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہواتھا۔ یہ تاثر پیدا ہوا کہ مُلک کا چیف جسٹس آزادانہ فیصلے کرتا ہے، کسی دباؤ میں نہیں آتا۔
سو، جب افتخار چوہدری کی برطرفی کی خبر سامنےآئی تواُسے جنرل مشرف کاجبرہی سمجھا گیا، جب کہ افتخار چوہدری نے بتایا کہ جنرل مشرف نےاُنہیں بلا کرحُکم دیاکہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ جنرل مشرف اور دیگر فوجی اُن پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اورجب انہوں نے انکار کیا تو جنرل صاحب غصّےسے اُٹھے اور کمرے سے چلے گئے۔ افتخار چوہدری کے مطابق انہیں پانچ گھنٹے وہاں زبردستی بٹھایا گیا، اور تب تک جانے نہ دیا، جب تک قائم مقام چیف جسٹس نے حلف نہیں اُٹھا لیا۔
جس روز افتخار چوہدری کو برطرف کیا گیا، اُس روز یہ خبریں بھی آئیں کہ جنرل مشرف کے ہاتھوں پانچ گھنٹے تک یرغمال رہنے کے بعد افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ جانےکی کوشش کی،لیکن اُنہیں روک دیا گیا۔ یوں افتخار چوہدری کا انکار اور مزاحمت اُنہیں ’’ہیرو‘‘ بنا گئی۔ وہ مُلک بھر میں مزید مقبول ہوگئے، جب کہ حکومتی اقدامات بھی اُن کےلیے ہم دردی کی فضا پیدا کر رہے تھے کہ برطرفی کے بعد اُنھیں گھرمیں نظربند کردیا گیا تھا۔ بیرونی دنیا سےاُن کا رابطہ منقطع ہوگیا۔اُن کی سرکاری رہائش گاہ سےقومی پرچم، سپریم کورٹ کا پرچم اُتار دیا گیا اور سرکاری گاڑی بھی واپس لے لی گئی۔
پھر13مارچ2007 ء کو ایک تصویر سامنے آئی۔ افتخار چوہدری اپنے خلاف ریفرنس میں پیش ہونےکے لیے گھر سے نکلے اور پیدل ہی سپریم کورٹ کی طرف چلے۔ اس موقعے پرموجود پولیس اہل کاروں نے اُنہیں بالوں سے پکڑ کر زبردستی گاڑی میں بٹھایا۔ جب یہ تصویر میڈیا پرآئی، جس میں ایک شخص کو بالوں سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے اور وہ شخص مُلک کا چیف جسٹس رہ چُکا ہے تو مُلک بھر میں اُن کے لیے ہم دردی اور اس نظام کےخلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔
افتخار چوہدری کےحق میں وکلاءتحریک شروع ہوگئی۔ جولائی 2007ء میں سپریم جوڈیشل کائونسل کافیصلہ افتخارچوہدری کےحق میں آیا، اُن کی برطرفی ختم کردی گئی اور وہ دوبارہ چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہوگئے۔ جس وقت یہ سب ہورہا تھا، مُلکی سیاست میں ایک اور پیش رفت بھی ہورہی تھی۔ اکتوبر 2007 ء تک اس وقت کی اسمبلیوں کی مدت ختم ہو رہی تھی۔ نئےانتخابات کاوقت قریب آرہا تھا۔
جنرل مشرف چاہتے تھے کہ وہ موجودہ اسمبلیوں ہی سے پانچ سال کےلیےخُود کو صدر منتخب کروا لیں، کیوں کہ کچھ معلوم نہیں تھا، انتخابات کے بعد جو اسمبلیاں بنیں گی، وہ مشرف کو صدر بنانے کے لیے ووٹ دیں گی یانہیں۔ اِس دوران پاکستان پیپلزپارٹی کی سربراہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے پسِ پردہ رابطے شروع ہوچُکے تھے۔ ایک ڈیل طے پا رہی تھی کہ بے نظیرکےخلاف کرپشن چارجز ختم کردیے جائیں گے اوران کی پاکستان واپسی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی، بدلے میں پیپلز پارٹی جنرل مشرف کو ووٹ دے گی، جب وہ صدرکے لیے الیکشن لڑیں گے۔
لیکن اس کے لیے پیپلز پارٹی کی یہ شرط بھی تھی کہ جنرل مشرف وردی اتاردیں گے اور بطور ایک سویلین صدرکام کریں گے۔ جب نواز شریف کو اس ڈیل کی خبرملی، تواُنہیں احساس ہوا کہ بےنظیر تو مُلکی سیاست میں واپس آرہی ہیں، اور ان کی عدم موجودی سے بےنظیر کو سیاسی میدان بھی کُھلا ملے گا، اور حکومت اُن کی جھولی میں ڈال دی جائے گی، تو اُنھوں نے بھی واپسی کا فیصلہ کیا۔
اُس وقت تک مُلک میں طاقت کے ایوانوں سے ٹکراجانے والے،مقتدرہ کے خلاف فیصلے دینے کی شہرت رکھنے والے افتخار چوہدری، بطور چیف جسٹس بحال ہوچُکے تھے۔ تو3 اگست2007 ء کو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکی۔ درخواست کی گئی کہ عدالت حکومت کو پابند کرے کہ جب نواز شریف وطن واپس آنا چاہیں تو اُن کی واپسی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے، کوئی مزاحمت نہ کی جائے اور نہ ہی اُنہیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے۔
23 اگست2007 ء کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ نوازشریف کو پاکستان میں داخل ہونے اور وہاں رہنے کا حق حاصل ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ عدالت نے حکّام کو یہ ہدایت بھی کی کہ جب نواز شریف وطن واپس آئیں تو کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ نواز شریف پاکستان واپس آنے کی تیاریاں کررہے تھےکہ ایک اور اہم، حیران کُن پیش رفت ہوئی۔ 11 ستمبر2007 ء کو نوازشریف نےپاکستان آنا تھا، اور اُس سے صرف دو روز پہلے، نو ستمبر کو، دو اہم افراد پاکستان آئے۔ یہ تھے، سعودی انٹیلی جینس کے چیف مقرن بن عبدالعزیز اور سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے بیٹے سعد حریری۔
انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور ایک معاہدے کی کاپی لہرائی۔ یہ وہ معاہدہ تھا، جو نوازشریف نے جنرل مشرف سے کیا تھا اور جس کے تحت نوازشریف نے10سال تک سیاست سے دُور رہنا تھا۔ مقرن بن عبدالعزیز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سعودی شاہ عبداللہ نے اس معاہدے کےتحت نوازشریف کو جیل سے نکلوایا تھا اور اب وہ اِس معاہدے کی پاس داری کریں۔ اس پریس کانفرنس کے باوجود نواز شریف پاکستان واپسی کے فیصلے پر قائم رہے اور 11 ستمبر2007 ء کو اسلام آباد پہنچ گئے۔
لیکن ائیر پورٹ پہنچتے ہی اُنہیں گرفتار کر کے دوبارہ مُلک بدر کردیا گیا۔ نوازشریف دوبارہ سعودی عرب بھیجے جاچُکےتھے، جنرل مشرف اور بےنظیر ڈیل حتمی مراحل میں داخل ہورہی تھی۔ پانچ اکتوبر2007 ء کو جنرل مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈینینس یعنی ’’این آر او‘‘ جاری کیا، جس کے مطابق یکم جنوری1986 ء سے12 اکتوبر 1999ء کے دوران سیاسی بنیادوں پر دائر کیے گئے مقدمات ختم کردیے گئے۔
چھے اکتوبر کو جنرل مشرف نے صدر بننے کے لیے الیکشن لڑا اور اکثریتی ووٹ لے لیے، یعنی اگلے پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے، لیکن ان کی نام زدگی کو چیلنج کرنے کے لیے عدالت میں درخواستیں دائر ہوچُکی تھیں، عدالت نے پابند کردیا کہ جب تک ان درخواستوں کا فیصلہ نہیں آ جاتا، الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان نہیں کرسکتا۔ یوں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مشرف کی صدارت عدالتی فیصلے سے مشروط ہوگئی۔
18 اکتوبر2007ء کو آٹھ برس کی جلاوطنی ختم کر کے بےنظیربھٹو بھی پاکستان واپس آگئیں۔ چھے اکتوبر کو ہونے والےصدارتی الیکشن میں جنرل پرویز مشرف کو کام یابی تو مل گئی تھی، لیکن صدارتی امیدوار کے طور پر اُن کی اہلیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِالتوا تھا اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی اُن کا سیاسی مستقبل بےیقینی سے دوچار تھا۔
جنرل مشرف کو خوف تھا کہ عدالت سےفیصلہ اُن کے خلاف آسکتا ہے، تو انہوں نےاس خوف سے پیچھا چھڑوانے کا فیصلہ کرلیا۔3 نومبر2227ء کو جنرل مشرف نے مُلک میں ایمرجینسی نافذ کر کےآئین معطل کردیا اور ایک عبوری آئینی حُکم نامہ جاری کیا۔ عبوری آئینی حُکم نامہ، مطلب پرویژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر، پی سی او۔ ججز سے کہا گیا کہ آپ کو پی سی او پر نیا حلف اُٹھانا ہوگا۔
افتخار چوہدری سمیت کئی ججز نے پی سی او پر حلف اُٹھانےسے انکار کردیا اور غیرفعال ہوگئے۔ سپریم کورٹ کےجن ججز نے پی سی او پرحلف اُٹھایا تھا، اُن میں جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی شامل تھے۔اُنہیں چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ اس اقدام سے جنرل مشرف مزید غیر مقبول اور جسٹس افتخار چوہدری مزید مقبول ہوچُکے تھے۔ اُنہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت اور ہم دردی بھی حاصل ہو چُکی تھی۔
بےنظیر بھٹو بھی اُن سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کی ججز کالونی گئیں، لیکن حکّام نے یہ ملاقات نہ ہونے دی۔ تین نومبر سے 15 دسمبر2007 ء تک مُلک میں ایمرجینسی نافذ رہی۔ اِسی دوران28 نومبرکو جنرل مشرف نے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر پاکستانی فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کےحوالےکردی اورخُود 29 نومبر کو سویلین صدر کے طور پر حلف اُٹھا لیا۔ اس دوران25 نومبر2007 ء کو نواز شریف بھی پاکستان واپس آگئے۔
اسلام آباد میں اُن کی ملاقات بےنظیربھٹوسےہوئی تو بےنظیر نے اُن سے کہا۔ ’’اگر افتخار چوہدری بطور چیف جسٹس بحال بھی ہوگئے، تو اُن سے انصاف کی اُمید نہ رکھیے گا۔‘‘ یہ سن کر نوازشریف حیران ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے وضاحت کی کہ جب آپ عدالت کے فیصلے کے بعد، ستمبر میں، پاکستان آئےتھےاور آپ کو ائیرپورٹ ہی سے واپس بھجوا دیا گیا تھا، اُس وقت افتخار چوہدری کو ایک بیلف بھیجنا چاہیےتھا۔ (بیلف ایک عدالتی اہل کار ہوتا ہے، جو عدالتی احکامات کی پابندی یقینی بناتا ہے) بےنظیر نے کہا، اگر افتخار چوہدری ایک بیلف بھیج دیتے، تو اِس سے پیغام ملتا کہ وہ واقعی انصاف چاہتےہیں۔
بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کی یہ گفتگو فرحت اللہ بابر بھی سُن رہے تھے، جو اِس ملاقات میں موجود تھے اور اِس کا احوال اُنہوں نے اپنی ’’دی زرداری پریزیڈینسی‘‘ نامی کتاب میں رقم کیا ہے۔ بہرکیف، 2008 ء میں انتخابات ہوئے۔مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی۔ نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نون بھی اس حکومت کا حصّہ تھی، جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کواقتدار ملا اور شہباز شریف وزیرِاعلیٰ بنائے گئے۔
اب چوں کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ افتخار چوہدری نے دیا تھا، یا چوں کہ وہ خود جنرل مشرف کے ڈسے ہوئے تھے تو مشرف کے سامنے حرفِ انکار کرنے والے ہر فرد سے اُنہیں ہم دردی تھی، یا وہ واقعی قانون کی سر بلندی کے لیے جنگ لڑ رہے تھے اور افتخارچوہدری کی برطرفی کو غیر قانونی سمجھتےتھے۔ ان میں سے کسی ایک وجہ سے وہ افتخار چوہدری کی بحالی کے حق میں تھے، لیکن پیپلزپارٹی حکومت ججز کو بحال نہیں کررہی تھی۔
اس بات پر اختلافات ہوئے اور 13 مئی 2008 ء کو نواز شریف کی جماعت حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔ فروری 2009 ء میں سپریم کورٹ سے ایک فیصلہ آیا، جس میں نواز شریف اور شہباز شریف، دونوں کو عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ یعنی پنجاب میں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ ختم ہوگئی اور سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ آنے کے اگلے ہی روز پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگانے کا فیصلہ کیا۔
ان فیصلوں سے نواز شریف کا یہ احساس مزید شدت پکڑگیا، کہ جب تک افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے منصب پر بحال نہیں کیا جاتا، شاید عدالتی فیصلے اُن کے خلاف ہی آتے رہیں گے۔15 مارچ 2009 ء کو نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ یہی مطالبہ وکلاء کابھی تھا، تو نواز شریف کو وکلاء کی بھی سیاسی اور افرادی قوت مل گئی۔ الجزیرہ رپورٹ کرتا ہےکہ لاہور سے لگ بھگ 200 بسوں، گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کا قافلہ اسلام آباد کی طرف نکلا۔
نواز شریف کا لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف آ رہا تھا، اس صورتِ حال پر غور کےلیےاُس وقت کے صدر آصف زرداری کی صدارت میں حکومت کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کی روداد بھی فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، چند مشیروں کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اگر مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے اور پارلیمنٹ کے سامنے یا ایوانِ صدر کے سامنے دھرنا دے دیا تو غیرجمہوری قوتوں کے ہاتھ حکومت کو گھربھیجنے کاجواز آجائے گا۔ نوازشریف وکلاء قیادت کے ساتھ لاہور سے گوجرانوالہ پہنچے اور وہاں پڑاؤ ڈالا۔
تب تک پیپلزپارٹی حکومت دباؤ میں آچُکی تھی، اس نے چیف جسٹس افتحار چوہدری اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگرججز کو بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ بعد میں یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ عدلیہ بحالی کے لیے مذاکرات میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے۔ افتخارچوہدری توبحال ہوگئے، لیکن پاکستان میں عدل آج تک بحال نہیں ہو سکا۔