سب باشعور ماں باپ کو یہ فکر ستاتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے۔ ہمارے بچے پاکستان میں کیسے ماحول میں رہیں گے۔ ہمارے بچے بھی یہی سوچتے ہیںوہ اپنے دوستوں سے مستقبل پر ہم سخن ہوتے ہیں بعض اوقات کچھ تلخی بھی ہو جاتی ہے۔یورپی ملکوں میں جانے کے طریقوں پر بحث ہوتی ہے۔اجنبی سمندروں کے تذکرے بھی ہوتے ہیں۔
ہر دیس میں یہ باتیں ہوتی ہیں، ایک معمول ہے۔دنیا کا ہر دکاندار بازار کا موڈ دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگاتا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ملک میں رہنے والے مختلف طبقات سے وابستہ الگ الگ آمدنی گروپوں سے عمر کے اعتبار سے پھر واہگہ سے گوادر تک۔ ہر صوبے میں کیا سوچ ہے۔ کیا ایک ملک کے سب لوگوں کو مستقبل ایک سا دکھائی دینا چاہئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مستقبل ماضی اور حال ہی میں تعمیر پاتا ہے کوئی الگ سے آسمان سے نازل نہیں ہوتا۔
آج کل ہم جس حال کا سامنا کر رہے ہیں ۔اس کی بنیادیں ہم نے ہی گزشتہ دہائیوں میں رکھی ہونگی۔ کیا ان دہائیوں میں ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں، پارٹی سربراہوں، لکھنے والوں، یونیورسٹیوں میں مستقبل کی پرورش کرنے والے اساتذہ نے ہر قدم اٹھاتے سمے ہر جملہ بولتے وقت کیا سنجیدگی سے غور کیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ کرتے ہوئے مستقبل کی شروعات کر رہے ہیں۔
آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہووں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے، ماضی حال اور مستقبل پر گفتگو کرنے کا دن ۔آج کی دوپہر ماضی مستقبل سے ملتا ہے اور حال جنم لیتا ہے ۔یہ حال ہی ہے جس میں مستقبل اپنے پنجے جماتا ہے ۔اسی طرح نماز عصر کے بعد محلے والے آپس میں ملتے ہیں آسودہ حال محلے دار تو کلبوں میں ملتے ہیں۔ چائے کافی ممنوعہ مشروبات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے ۔اپنے اپنے کاروبار کے حوالے سے 'چٹ چیٹ ہوتی ہے ۔کروڑوں کے کاروبار زیر بحث آتے ہیں۔کچی بستیوں میں جہاں اکثریت بستی ہے وہاں کلبوں کی طرح منظم شائستہ اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے تو مستقبل زیر بحث نہیں آتا ۔متوسط اور غریب طبقوں کے خاندانی سربراہ اپنے اپنے روزگار کے تناظر میں اپنی زبان اور اپنے لہجے میں ایک دوسرے کا حال جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج میں آپ سے یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان میں واہگہ سے گوادر 1850کلومیٹر یا خنجراب سے گوادر 2260 کلومیٹر سوچ کی لہر ایک ہی ہے؟ مستقبل کے تصورات ایک ہی ہیں ؟یہ بھی سوچنا ہے کہ سمندر پارمختلف ملکوں میں رہنے والے ایک کروڑ کے قریب پاکستانیوں کے ذہنوں میں مستقبل کا کیا نقشہ ہے۔
اعداد و شمار جانتے ہوئے ایک حوصلہ افزا یہ امر بھی نظر آیا کہ پاکستان کا رقبہ جو ہم ایک عرصے سے 796096مربع کلومیٹر پڑھتے آئے ہیں اب بڑھ کر 881913مربع کلومیٹر ہو گیا ہے ۔فاٹا کے اضلاع اب پاکستان میں ضم ہو گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو 200مربع سمندری میل بھی مزید مل گئے ہیں یعنی قدرت اور جغرافیہ ہم پر مہربان ہیں۔
اب تحقیق یہ ہے کہ کیا یہ قریباََ نو لاکھ مربع کلومیٹر اب جس میں فاٹا بھی شامل ہے خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان ،آزاد جموں و کشمیر ،پنجاب، سندھ، بلوچستان اپنے وفاق کے مستقبل کا ایک ہی تصور رکھتے ہیں ۔پھر ان صوبوں میں مختلف زبانیں بولنے والے مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مختلف فرقوں اور مسلکوں سے منسلک پاکستانی کیاآنے والےکل کاایک ہی تصور رکھتے ہیں ۔
آئیے پہلے تو یہ طے کر لیں کہ مستقبل ہوتا کیا ہے۔ سب سے پہلے کیا ہمارے 760 کھرب کے بیرونی اور اندرونی قرضے اتر چکے ہوں گے۔جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہوچکے ہیں ۔پھر کیا ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ قانون کا نفاذ ایک سا ہوگا ۔کیا ہمارا عدالتی نظام سب کو انصاف دے رہا ہوگا ۔عدالت کا حکم چل رہا ہوگا یا سرداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور شہری مافیاؤں کی حکمرانی ہی رہے گی ۔کیا زرعی طور پر ہم اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھا چکے ہوںگے۔اس وقت ہماری یہ صلاحیت دوسروں کی نسبت بہت کم ہے۔ہم ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں کتنا اضافہ کر چکے ہوں گے۔
جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس وقت بھی ہم اپنے ملک کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں کیا وہ ایک ہے ۔میڈیا جو کچھ دکھاتا ہے۔ درسگاہوں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے۔ دینی مدارس میں جو تربیت دی جا رہی ہے۔ ریاست اور ریاستی ادارے جو کچھ منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ صدر ،وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے جو بیانات آتے ہیں فوجی سربراہوں کے جو فرامین جاری ہوتے ہیں۔ ان میں کتنی یکسانیت ہے۔ آئی ایم ایف کی فائلوں میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ میں اس خطے کے آئندہ امکانات کیا ہیں۔ معیشت کی مانیٹرنگ کرنے والی مغربی ایجنسیاں کیا کہتی ہیں ۔اقوام متحدہ کے مختلف ادارے جنوبی ایشیا کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان میں کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ان دنوں شمالی علاقوں میں جو سانحے رونما ہو رہے ہیں کیا اسی طرح جاری رہیں گے۔ہماری اپنی مختلف وفاقی وزارتیں ملک کے ان شعبوں میں آئندہ کیا کیا اتار چڑھاؤ دیکھ رہی ہیں۔ وزارت خارجہ نبض پر جو انگلیاں رکھتی ہے وہ سفارت کاری میں کیا محسوس کررہی ہے۔ہمارا عظیم دوست چین پاکستان کے علاقوں کے بارے میں کیا نقشہ دیکھ رہا ہے ۔
ہمارے اپنے سماج میں مختلف عمرکے گروپ مستقبل کے کیا تصورات رکھتے ہیں کہ کیا کیا چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں۔ چیلنجوں کا مقابلہ کس حد تک کرنا چاہتے ہیں ۔ہمارے سکیورٹی کے کیا مسائل ہوں گے۔ ہمارااناج کس حد تک کافی ہوگا۔
50 سال کی عمر سے زیادہ لوگ اٹھتے بیٹھتے پاکستان کے مستقبل پر کیا جملے بولتے ہیں۔ ہمارے نوجوان 15سے 35سال کے درمیان ،ان کے ذہنوں میں آئندہ کی صورت گری کیا ہے ۔سوشل میڈیا پر یو ٹیوبرز ٹک ٹاکرز کیا پیشینگوئی کر رہے ہیں۔ ٹی وی تفریحی چینلوں میں ڈراموں میں مستقبل کا کیا خاندانی ڈھانچہ دکھایا جا رہا ہے ۔
آخر میں یہ قول فیصل کہ اگر اپنے اس عظیم وطن کے مستقبل کے بارے میں تصورات ایک جیسے نہیں ہیں باہم متضاد ہیں یا متصادم ۔کیا یہ تشویش ناک امر ہے یا سماجیات کے ماہرین کے نزدیک اس میں فکر کی کوئی بات نہیں ۔
اب ہم جس انتشار، مشکلات، پسماندگی اور بے روزگاری سے دوچار ہیں۔ کیا یہ اس لیے تو نہیں ہے کہ ہمارے مستقبل کے بارے میں تصورات الگ الگ ہیں ۔قومی سیاسی جماعتیں جو عوام کی قیادت کی دعویدار ہیں وہ کیا مستقبل کے ایک تصور کیلئے ایک سے طرز حکمرانی، ایک سے عدالتی نظام ،زندگی کی ایک سی آسانیوں کیلئے اپنے منشور اپنا آئین بنا رہی ہیں یا ہمارے ریاستی ادارے اس سلسلے میں کچھ فکر مند ہیں۔