• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ وفاقی حکومت میں جو چند بہت پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ والے وزیر ہیں ان میں سرفہرست احسن اقبال کا نام آتا ہے۔ انہوں نے ترقی کے مدارج میرے سامنے طے کیے ہیں۔ انہیں سوجھ بوجھ ورثے میں ملی ہے۔ ان کی والدہ ماجدہ آپا نثار فاطمہ بہت نیک نام اور سیاسی حلقوں میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ آپ ایم این اے بھی رہی تھیں، صرف وہ نہیں ان کے شوہر بھی قیامِ پاکستان سے قبل غالباً گورداسپور سے ایم این اے رہ چکے تھے۔ ایک موقع پر شاید چودہ اگست کے حوالے سے کوئی تقریب تھی، جنرل ضیاء الحق نے ایوانِ صدر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا، جس میں بڑی تعداد میں صحافی بھی مدعو تھے اور ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ وہاں میں نے احسن اقبال کی ’’رونمائی‘‘ ہوتے دیکھی، جنرل صاحب نے اس نوجوان کا تعارف کروایا اور پھر انہیں اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ تقریر اچھی تھی اور اس میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار نئے زاویے سے کیا اور سب سے داد پائی۔ بس یہاں سے ان کے سیاسی سفر کا آغاز ہوا اور آج انہیں صرف وزیر نہیں ایک دانشور کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ بس ایک کمی ان میں ایسی ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھی۔ اپنے نارووال کے حلقے سے باہر ان کا رویہ اصلاح طلب ہے، ان میں جو عاجزی ہونی چاہیے، اس کی بجائے ان کی شخصیت اس پہلو سے غور طلب ہے۔

جنرل ضیاء الحق سے میری ایک اور ملاقات ہوئی۔ یاد نہیں کس حوالے سے تھی، بہرحال وہ فوجی وردی میں تقریب گاہ میں داخل ہوئے اور سیاست دانوں سے مصافحہ کرتے کرتے ان کی نظر اچانک مجھ پر پڑی، میں پی ٹی وی کے ایم ڈی اور ممتاز شاعر ضیا جالندھری کے ساتھ کھڑا گپ شپ میں مشغول تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی سیدھا میری طرف رُخ کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ حاضرین سے ملاقات ادھوری چھوڑ کر میری طرف کیوں آئے، میں نے سوچا شاید ضیا جالندھری سے کوئی بات کرنا ہو، مگر اگلے ہی لمحے میں نے سوچا کہ انہیں ضیا صاحب کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی وہ تو انہیں کسی بھی وقت ملاقات کا آرڈر جاری کر سکتے تھے۔ اتنے میں ضیا صاحب میرے قریب آئے، میں نے مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا مگر انہوں نے مصافحہ پر معانقہ کو ترجیح دی اور پھر ساتھ ہی کہا قاسمی صاحب آپ تصویر میں تو بہت نوجوان نظر آتے ہیں اور پھر ساتھ ہی ہنستے ہوئے بولے ’’آپ دل چھوٹا نہ کریں، آپ ماشاء اللہ واقعی نوجوان ہیں۔‘‘ انہوں نے مجھے کہا کھانے کے بعد آپ جائیے نہیں، آپ سے گپ شپ کرنی ہے۔ چنانچہ جب سب چلے گئے تو میں لان میں آ گیا۔ جہاں ضیا صاحب، اے کے بروہی اور صدیق سالک موجود تھے۔ دو تین منٹ کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور لان میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے تک مجھ سے مختلف معاملات میں میری رائے لیتے رہے جو ان کے کسی کام کی نہیں تھی کہ میرے اور ان کے نقطہ نظر میں کہیں بھی ہم آہنگی نہیں تھی۔ آخر میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے ’’میرے لائق کوئی بھی خدمت ہو بلاتکلف بتائیے۔

ان دنوں میرے عزیز دوست سراج منیر کے والد گرامی مولانا متین ہاشمی دیال سنگھ کالج میں دو صاحبانِ علم کے ساتھ دینی معاملات کے حوالے سے ایک انسائیکلوپیڈیا پر کام کر رہے تھے، میں نے ضیا صاحب کو بتایا کہ آپ کی حکومت نے اکانومی ڈرائیو کے لیے یہ علمی سیل ختم کر دیا ہے، اسے بحال ہونا چاہیے۔ انہوں نے اسی وقت صدیق سالک کو ہدایت کی کہ آج ہی وہ سیل بحال ہونا چاہیے اور کل مولانا متین ہاشمی کو ان کے گھر سے لے کر دوبارہ ان کی مسند پر بٹھایا جانا چاہیے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد ضیا صاحب نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’آپ کوئی خدمت بتائیں‘‘ میں نے عرض کی کہ میں نے ابھی ایک گزارش پیش کی تھی اور آپ نے اسی وقت تسلی بخش طور پر وہ کام کر دیا۔ جس پر ضیا صاحب بولے ’’وہ تو آپ نے مجھ گناہ گار کے نامہ اعمال میں ایک نیکی کا اضافہ کیا۔ اب آپ کوئی کام بتائیے میں نے دوبارہ اپنی بات دہرا دی۔ مگر ضیا صاحب نے تین دفعہ کہا ’’کوئی کام، کوئی سہولت کچھ تو بتائیے۔ یہ بات واضح تھی کہ وہ یہ بات بار بار اس لیے کہہ رہے ہیں کہ کوئی پلاٹ لینا ہے، کوئی عہدہ لینا ہے، جو بھی لینا ہے وہ بتائیں، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ ملاقات ختم ہو گئی۔اور اس کے ساتھ ہی میں ایمان کی سلامتی کے ساتھ لاہور روانہ ہو گیا۔

تازہ ترین