(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ ہفتے ہم ذکر کر رہے تھے کہ لاہور میں ایک ایسا اسپتال ہے جہاں پر مہاتما گاندھی، قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جنا ح تشریف لائیں لیکن آج کتنے لاہوریوں کو اس کا علم ہے؟ ہماری قوم میں ایک تو ویسے ہی تعلیم کی کمی ہے دوسرا مطالعہ نہیں کرتے تیسرا جو چند یادگاریںرہ گئی ہیں ان کے بارے میں لوگوں کو نہیں بتایا جاتا۔ لاہور شہر ثقافتی، علمی اور تہذیبی اعتبار سے بر صغیر کا منفرد اور بڑا خوبصورت شہر ہے مگر اس شہر بے مثال کو ہم نے لوہے، سریے، اینٹوں اور شیشے کا ایک بد نما شہر بنا دیا ہے۔اورنج ٹرین، میٹرو ٹرین اور اب ییلو ٹرین بے شک شہر کی ضرورت ہے مگر ان سب نے شہر لاہور کو خوبصورت بنانے کی بجائے ایک ایسا شہربنا دیا ہےجس میں اب کوئی خوبصورتی نہیں رہی ہر کوئی بھاگم بھاگ جا رہا ہے۔ کاش لاہور اس کے اصل تہذیبی، ثقافتی اور تعمیراتی حسن کے ساتھ رہنے دیا جاتا اور کوئی نیا شہر لاہور سے کچھ فاصلے پر آباد کیا جاتا۔آپ یہ دیکھیں کہ قیام پاکستان کے وقت لاہور کی آبادی صرف تین لاکھ 42 ہزار تھی۔آج یہ شہرتین کروڑ افراد کا ہو چکا ہے اور تاحال دوسرے شہروں کے لوگ خصوصاََکے پی کے اور افغانستان کے لوگ شہر میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میںآرہے ہیں۔ اس وقت روایتی اور پرانے لاہورئیے تو کم ہوتے جا رہے ہیں لاہور کی دوسری بڑی آبادی آج کے پی کے لوگ ہیں جو لاہور کے 14 دروازوں کے علاوہ تمام جدید علاقوں میں کپڑے، کھانے پینے غرض ہر کاروبار کر رہے ہیں۔ لاہور کی اصل ثقافت اور تہذیب تو اب کہیں نظر ہی نہیں آتی۔
خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ہم ذکر کر رہے تھے گلاب دیوی اسپتال کا آج سے کوئی چالیس پچاس برس قبل یہ علاقہ بالکل ویران اور سنسان تھا بلکہ قیام پاکستان کے وقت تو یہ ایک جنگل تھا گلاب دیوی اسپتال کی پچھلی طرف والٹن ایئرپورٹ بھی تھا۔ابھی صرف تین سال پہلے تک والٹن ایئرپورٹ پر فلائنگ کلب کے جہاز اڑان بھرا کرتے تھے۔ 1965ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں اس ایئرپورٹ سے بھی جنگی جہاز اڑان بھرتے رہے یہ وہ تاریخی ایئرپورٹ ہے جہاں سے کبھی لاہور ڈھاکہ کی پہلی پرواز بھی گئی تھی کیا تاریخی ایئرپورٹ تھا۔ بات اصل یہ ہے کہ بانی پاکستان نہ صرف اس ایئرپورٹ پرآئے بلکہ انہوں نے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین سے خطاب بھی کیا، زخمی اور بیمار مہاجرین کی عیادت بھی کی۔اس ایئرپورٹ سے وہ پاکستان کے پہلے دارالحکومت کراچی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ اس والٹن ایئرپورٹ پر گلاب دیوی اسپتال کے ڈاکٹروں نے میڈیکل کیمپ لگایا ان کا علاج کیا۔آج کون جانتا ہے کہ یہ جگہ کتنی تاریخی تھی اس ایئرپورٹ پر ایک جگہ پر قائدا عظم کی ایک تصویر اور چند سطریں لکھ کر نصب کی ہوئی ہیں ۔نہ رات کواس پر کوئی روشنی ہے اور نہ دن میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تختی کیا ہے۔ ہمارے وہ حکمران جو جگہ جگہ اپنے نام کی تختیاں اور تصاویر لگا رہے ہیں کاش کوئی ادارہ کسی جگہ پر بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ہی یاد کر لے۔ہم نے کتنے نئے ادارے ،اسپتال اور کلینک بنائے کیا ان کا نام مادر ملت فاطمہ جناح کے نام پر رکھا۔ماد ر ملت بننے کے لئے واقعی نڈرپن اور کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہم نے تو مادر ملت کو بھلا دیا۔آج والٹن ایئرپورٹ ختم ہو چکا ہے۔ وہاں پر بہت بڑا کاروباری حب بن چکا ہے۔ اس جگہ کبھی پودوں کی کئی نرسریاں بھی تھیں آج وہ بھی ختم ہو چکی ہیں ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ جگہ خوبصورت ہو چکی ہے ہم یہ کہتے ہیں کہ تاریخی اور قدیم جگہوں اورعمارات کو محفوظ رکھنا چاہئے اگر آپ کی یہ سوچ ہے کہ اب پرانی اور قدیم چیزوں کا کیا فائدہ تو پھر پرانے لاہور کو کیوں بچانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بڑے میاں صاحب اندرون لاہور کے دروازوں اور کلچر کو محفوظ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اگرپرانی عمارات اور تاریخی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر شاہی قلعے کو بھی گرا دیں کیا ضرورت ہے۔ اس جگہ پلازے اور کاروباری حب بنا دیں۔ والٹن ایئرپورٹ بر صغیر کا قدیم ترین اور لاہور کا پہلا ایئرپورٹ تھا اس ایئرپورٹ سے کئی اہم شخصیات نے ہوائی سفر کیا تھا۔ یہ ایئرپورٹ غیر رسمی طور پر 1918ءمیں شروع ہو گیا تھا جبکہ 1930ءمیں اس ایئرپورٹ سے باقاعدہ پروازیں شروع ہو گئی تھیں ہم نے اس تاریخی ایئرپورٹ کے سو برس مکمل ہونے سے قبل ہی اس کو ختم کر دیا۔ اس ایئرپورٹ سے برٹش فوج اور رائل انڈین ایئر فورس کے طیارے پرواز کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ایئرپورٹ سے بھی کئی جہازوں نے اڑان بھری تھی۔ والٹن ایئرپورٹ اور والٹن روڈ ایک برطانوی افسر جان والٹن کے نام پر رکھی گئی تھی جنہوں نے بر صغیر اور خصوصاََلاہور میں ہوا بازی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ۔دلچسپ بات کیا بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی حکومت نے سرجان والٹن کے نام کی کہیں بھی کوئی تختی نہیں لگائی کسی نے والٹن روڈ کو چوڑا کرتے وقت بھی اس روڈ پر کسی جگہ سر جان والٹن کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ۔ہم کتنے بے حس اور نا قدرے لوگ ہیں ارے بابا یہ وہ ایئرپورٹ ہے جہاں سے بر صغیر کی پہلی خاتون ہوا باز نے بھی اڑان بھری تھی اسی ایئرپورٹ پر برصغیر کی پہلی نادرن انڈیا فلائنگ کلب بھی قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کی جس پہلی خاتون پائلٹ نے یہاں سے اڑان بھری تھی اس کا نام سرلا ٹھاکراں تھا وہ پہلی ہندو اور پہلی خاتون تھیںجنہوں نے ایک اوپن کاک پٹ طیارےمیں اڑان بھری تھی۔
سننے میں آیا ہے حکومت ییلو ٹرین بنا رہی ہے پہلے جامنی ٹرین بنا رہی تھی جو غالباََ ٹھوکر نیاز بیگ سے ہر بنس پورہ تک چلے گی ۔ رستے میں 14/15اسٹیشنز بھی ہونگے ۔یقیناََ اس منصوبے پر اربوں روپے خرچ ہونگے ۔ارے عقل مندو! ہر بنس پورے سے جیا بگا تک ریلوے لائنیں بچھی ہوئی ہیں بجائے ان کو استعمال میں لانے کے اربوں روپے خرچ کر رہےہو ۔ (جاری ہے)۔