ہم نے پاکستان میں ایک آزاد، خودمختار اور باوقار میڈیا کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کیلئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، قربانیاں دیں، اور آمریتوں کے خلاف کھڑے رہے۔ لیکن افسوس، آج کا منظرنامہ اُس خواب سے کوسوں دُور جا چکا ہے۔ میڈیا اب ’’میرا‘‘ اور ’’تمہارا‘‘ میں تقسیم ہو چکا ہے، گویا خبر اب نظریے سے مشروط ہے، اور سچائی رائے کی غلام بن چکی ہے۔
اپریل 2022ءمیں پاکستان کی سیاست نے ایک انتہائی ڈرامائی موڑ لیا۔ وزیراعظم عمران خان کو جنرل باجوہ کی حمایت سے، حکومتی اتحادیوں کو توڑ کر اور پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی پر دباؤ ڈال کر تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا۔ یہ تبدیلی صرف ایک حکومت کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ پاکستان کے سیاسی و سماجی ڈھانچے میں ایک گہری دراڑ بن کر سامنے آئی اور سب سے زیادہ اس دراڑ کی زد میں آیا میڈیا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بڑے طبقے نے عمران خان پر تنقید کو اپنی ترجیح بنا لیا۔ یہ تنقید بعض اوقات غیرمتوازن اور ذاتی حملوں تک جا پہنچی۔ جواباً، پی ٹی آئی کے حامیوں اور خاص طور پر سوشل میڈیا ٹیموں نے شدید ردِعمل دیا جو صرف اختلافِ رائے نہ رہا بلکہ ٹرولنگ، گالم گلوچ اور صحافیوں کی کردار کشی میں بدل گیا۔
سوال یہ ہےکہ اس سب سے کس نے فائدہ اُٹھایا؟صحافت بدنام ہوئی، سیاست تقسیم ہوئی اور جمہوریت کمزور ہو گئی۔ سچائی پیچھے رہ گئی اور شور غالب آ گیا۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس شدت پسند ماحول میں کسی فریق نے کچھ حاصل نہیں کیا — سب کچھ بگڑا ہے۔ان حالات میں سب فریقوں کو غور کرنا ہو گا۔
پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر تنقیدی آواز دشمن کی آواز نہیں ہوتی۔ اختلاف کا دلیل سے جواب دیا جا سکتا ہے، الزامات کو حقائق سے رد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن گالی، تضحیک اور دھونس سے نہ تو سچ کودبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی رائے بدلی جا سکتی ہے۔ صحافیوں کو ’’لفافہ‘‘ یا ’’غدار‘‘ کہنا خود اپنی سیاسی اخلاقیات کو گندا کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحافی پارٹی کارکن نہیں ہوتا — نہ وہ نون لیگی ہوتا ہے، نہ جیالہ، نہ انصافی، — وہ اگر سچ لکھے گا تو سب پر لکھے گا۔ جو صحافی آج ناانصافی پر خاموش ہے، کل وہی کسی اور کے خلاف بولے گا، اور پھر سب کہانی دہرائی جائےاسی طرح میڈیا کو بھی دیکھنا ہوگا کہمیڈیا صرف اقتدار پر تنقید کرنے یا کسی خاص سیاسی جماعت پر تنقید کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ذمہ داری ہے — ایک عہد ہے سچ بولنے کا۔ جب میڈیا طاقت کے سامنے جھک جائے یا مخصوص حلقوں کے ایجنڈے پر چلے، تو وہ صحافت نہیں رہتی، بلکہ پروپیگنڈا بن جاتی ہے۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ انصاف، قانون اور انسانی حقوق کیلئے یکساں آواز اٹھائے — چاہے وہ کسی کیلئے بھی ہو۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف سمری ٹرائلز، عدلیہ کی تضحیک اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں ایسی حقیقتیں ہیں جن پر خاموشی، صحافت کی موت ہے۔ان حالات میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کے اکابر کوحل نکالنا ہو گا اور یہ راستہ صرف باہمی احترام اور مکالمے سے نکلے گا۔
ملک میں اس وقت سچائی دبائی جا رہی ہے، جمہوریت مجروح ہے، اور عدلیہ غیر مؤثر۔ اس وقت میڈیا اور سیاست دانوں، دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتقام، نفرت، اور طاقت کے نشے سے نکلیں — اور ایسی فضا پیدا کریں جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا جا سکے۔قوموں کی ترقی دلیل، برداشت اور سچ سے ہوتی ہے، تضحیک، گالی اور دھونس سے نہیں۔ تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ دلیل اور ثبوت کے ساتھ بات کرے، جبکہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ سچ کا ساتھ دے۔پاکستان کے حالات میںیہ وقت جھوٹ کے مقابلے میں سچ ، تعصب کے مقابلے میں انصاف، اور انتشار کے مقابلے میں مکالمے کو ترجیح دینے کا ہے۔ ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
آئیے — گالی کی جگہ دلیل دیں، نفرت کی جگہ احترام کریں، اور اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں۔ یہی پاکستان کیلئے بہتر ہے، اور یہی ہمارا فرض بھی۔