پنجاب اسمبلی میں پیر کے روز ہنگامے، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کی جو کیفیت نظر آئی وہ ایک طرف یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ہم اپنے نظام اور جمہوری اقدار کو کس طرف لیجارہے ہیں، دوسری جانب سیاسی زعماکو متوجہ کرتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی سیاسی وپارلیمانی تہذیب کوبگاڑ سے بچانے اور مثبت خطوط پر استوار کرنے کے ٹھوس اقدام کریں۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قائم مقام اسپیکر ظہیر اقبال چنڑ اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر معین قریشی کی اسمبلی فلور پر گفتگو کے دوران اپوزیشن رکن خالد نثار ڈوگر نے اپنی نشست سے اٹھ کر اچانک حسان ریاض کو تھپڑ ماردیا۔ ہاتھا پائی کا آغاز مبینہ طور پر ایک دوسرے پر آوازیں کسنے سے شروع ہوا۔قائم مقام اسپیکر کی طرف سے پانچ منٹ کے لئے ملتوی کیا گیا اسمبلی اجلاس ایک گھنٹے بعد بحالی طرف آسکا۔ خالد نثار ڈوگر کی رکینت پنجاب اسمبلی کی15 نشستوں کیلئے معطل کی گئی تو اپوزیشن رکن شیخ امتیاز محمودنے قائم مقام اسپیکر کے اتھارٹی چیلنج کردی جس پر ان کی رکنیت بھی معطل کردی گئی ۔ قبل ازیں جون میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی پر 26ارکان معطل کئے گئے ان کی رکنیت حکومت اپوزیشن مذاکرات کے بعد22جولائی ہی کو بحال ہوئی ہے۔ پارلیمانی ایوان اپنی نمائندہ حیثیت کے باعث قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ اختلاف انسانی فطرت کا حصہ اور جمہوریت کی روح سہی، اُس کے آداب ہیں جن کی پاسداری نہ کی جائے توقوم کا چہرہ مسخ ہوکر دنیا کے سامنے آتا ہے۔ قوانین اور قواعد اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ انکی پاسداری کی جائے سیاسی جماعتوں کو اپنے ہر سطح کے ارکان کی تربیت کے ایسے پلان سختی سے روبہ عمل لانے چاہئیں جن میں گفتگو کو شائستگی اور استدلال کا نمونہ اور احتجاجی مظاہروں کو امن ،نظم اور ضبط کی مثال کہا جاسکے۔ جو لوگ ان آداب، ضوابط،قوانین کی پاسداری نہ کریں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔