نادیہ سیف
خُود کلامی (monologue) کے انداز میں افسانہ لکھنے کا انداز خاصا منفرد، پُراثر ہوتا ہے، کیوں کہ اِس میں پورا فوکس ایک ہی کردار پر رہتا ہے اور قاری اُس کے احساسات، خیالات اور تجربات کے ساتھ براہِ راست جُڑ جاتا ہے۔ سو، یہاں آپ کو مختصراً ایک منظّم طریقۂ کاربتایا جا رہا ہے، جس سے آپ اپنے افسانے کو خُود کلامی کے انداز میں بہتر بنا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے کردارکی گہرائی میں جائیں۔ کردار کون ہے؟ اُس کی شخصیت، سوچ، اور اندرونی دنیا کو سمجھیں۔ اُس کے ذہنی، جذباتی و روحانی تجربات کو تفصیلاً بیان کریں۔ اُس کی فطرت، کائنات، زندگی سے کیا اُمیدیں ہیں، اِن سوالات کے جوابات آپ کے کردار کو ایک مضبوط بنیاددیں گے۔
افسانے کاآغاز کسی خاص تجربے یا سوال سےکریں۔کردار، فطرت یا کائنات کی کسی شے یا اپنے آپ سے مخاطب ہوسکتا ہے۔ مثلاً:’’یہ درخت کیا میری زندگی کا عکس ہیں یا مَیں ان کاعکس ہوں؟‘‘ کردار کے خیالات کو فطری انداز میں بہنے دیں۔ جملے مختصر یا لمبے ہوسکتے ہیں، لیکن مکالمے کی روانی اہم ہے تاکہ قاری، کردار کی سوچ میں جذب ہو سکے۔ ’’تمہیں معلوم ہے، جب میں یہاں آیا تھا، تو یہ درخت بہت چھوٹا تھا، جیسےمَیں خود تھا۔
اب، یہ بڑا ہوگیا ہے اور مَیں؟ شاید کچھ نہیں بدلا۔‘‘ کردار کی سوچ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہے۔ وہ فطرت یا کائنات سے متعلق نئے احساسات یا تجربات کا اظہار کرے۔ مثلا:’’پہلے مَیں سوچتا تھا کہ یہ دنیا میری منتظر ہے، لیکن اب لگتا ہے، شاید میں ہی اِس کے انتظار میں ہوں۔‘‘
کردار کی زبان و انداز فطری اور دل کش ہو۔ اُس کی بات چیت، اُس کی سوچ کےمطابق ہونی چاہیے۔ اگر وہ فلسفیانہ ہے، تو زبان میں گہرائی ہوگی، اگر جذباتی ہے تو زیادہ حسّاس اور نرم الفاظ استعمال ہوں گے۔ خُود کلامی کے انداز پر مبنی افسانے میں اندرونی کشمکش کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کردار اپنے آپ سے سوالات کرکے، جواب تلاش کرتا یا پھر اُن میں کھو جاتا ہے۔ مثلاً:’’کیا مَیں واقعی اِن سب کا حصّہ ہوں، یا یہ سب کچھ میرے اندر ہے؟‘‘
ایسے افسانےکا اختتام کردارکے کسی اہم انکشاف یا احساس پر ہو سکتا ہے۔ اُسے اپنے وجود یا زندگی کے مقصد کے ضمن میں کوئی نیا ادراک ہو، یا فطرت اور کائنات سے ایک نیا تعلق محسوس کرے۔ مثلاً: شاید مَیں اِن درختوں کی طرح ہوں، خاموش مگر زندہ، اپنی جگہ پر قائم، اور انتظار میں کہ کب کوئی مجھے سمجھے۔‘‘
ایسے افسانے کی خوبیوں کی بات ہو، تو اِس میں کردار کی سوچ، احساسات کی گہرائی میں جانا ممکن ہوتا ہے۔ چوں کہ ایک ہی کردار بول رہا ہوتا ہے، تو اُس کی شخصیت کا ہر پہلو سامنے آتا ہے۔ قاری براہِ راست کردار کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ افسانہ فطرت وکائنات کے تناظر میں بہت دل چسپ بن سکتا ہے، کیوں کہ یہ دونوں عناصر گہرائی و معنویت کو مزید بڑھا دیں گے۔